ارحم نے آج ایک اور چوزہ خریدا تھا۔ جونہی اس نے یہ نیا چوزہ ڈربے میں چھوڑا تھا، پہلے موجود نسبتاً بڑے اور پرانے چوزوں نے چونچیں مار مار کر اس کا ناک میں دم کر دیا تھا۔ وہ ڈربے کے ایک کونے سے دوسرے اور تیسرے سے چوتھے میں بھاگتا کسی سازگار جگہ کا متلاشی تھا مگر پرانے چوزے اس تنہا چوزے کی کمزوری سے لطف اندوز ہو رہے تھے اور ڈربے ہر اپنی ملکیت کا اظہار کر رہے تھے۔ چوزہ تو رفتہ رفتہ دوسرے چوزوں میں گھل مل گیا اور اسے ڈربے میں نئے رکن کی حیثیت سے قبول کر لیا گیا مگر یہ منظر ارحم کے ذہن کو سوچنے کی نئی راہیں دے گیا۔
استحصال کیا ہے؟ کیوں کیا جاتا ہے؟ کیا یہ کسی ذہنی کیفیت کا نتیجہ ہے؟ اس کی روک تھام کیسے ممکن ہے؟ کیا صرف ایک قوم ہی دوسری کے خلاف یہ رویہ اپناتی ہے یا اس ذہنی ابنارمیلیٹی کی جڑیں افراد کے رویوں میں بھی دکھائی دیتی ہیں۔ استحصال دراصل اس برتاؤ یا عمل کا نام ہے جس کی بنیاد نا انصافی اور خود غرضی پر ہوتی ہے۔ یہ نا جائز منافع، حقوق یا فائدہ حاصل کرنے کے لئے کیا جاتا ہے۔ خود غرضی اسے جنم دیتی اور یہ احساس برتری اور کمتری کو جنم دیتا ہے معاشرے میں نابرابری طبقات پیدا ہوتی ہے اور طاقتور اور کمزور کا کلچر جنم لیتا ہے۔ یہ رویہ ایک قوم بھی دوسری کے خلاف اپناتی ہے، ایک معاشی نظام، معاشرتی فلسفہ،سیاسی فکر بھی دوسروں کا استحصال کرتا ہے اور افراد بھی اس روئیے میں لتھڑے دکھائی دیتے ہیں۔
یقیناً اس روئیے کی روک تھام ضروری تھی اسی لئے ہر دور میں اللہ تعالیٰ نے پیغمبر بھیجے جنہوں نے عورت، بچے، بوڑھے، جوان یعنی فرد سے لے کر قوم اور معاشی نظام سے لے کر معاشرتی اور سیاسی فکر تک کی حدود واضح کر دیں، فلسفہ زندگی دے دیا، حقوق واضح کر دیئے کہ کوئی کسی کا استحصال نہ کر سکے مگر افراد نے حدود اللہ کو ہر زمانے میں پار کیا اور دوسرے کی کمزوری سے فائدہ اٹھانے کو چالاکی، ہوشیاری، اسمارٹنیس، دانائی اور دانشوری سمجھا اور خوامخواہ کے احساس برتری کے زعم میں دوسروں کے کمزور پہلوؤں سے فائدہ اٹھا کر لطف اندوز ہوا۔ دوسری طرف مظلوم نے ظلم سہہ کر اور اس کھلی غنڈہ گردی کے خلاف آواز اٹھانے کی بجائے مفاہمت کی پالیسی اختیار کیے رکھی اور یوں اس استحصالی روئیے کو پھلنے پھولنے کا سامان مہیا ہوا۔ فرعون سے لے کر ٹرمپ تک نے اسی ذہنی کیفیت کے تحت ظلم وجبر کی انتہا کیے رکھی اور تمام انبیاء بشمول موسیٰ علیہ السلام نے اس رویئے کو ختم کیا۔ بے شک ظلم پر خاموش رہنے والا ہی ظالم کو شہ دیتا ہے لہٰذا وہ بھی ظالم ہے۔ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا، اپنے بھائی کی مدد کرو خواہ وہ ظالم ہو یا مظلوم۔ صحابہ نے عرض کیا، یا رسول اللہ! ہم مظلوم کی تو مدد کر سکتے ہیں۔ لیکن ظالم کی مدد کس طرح کریں؟ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ ظلم سے اس کا ہاتھ پکڑ لو (یہی اس کی مدد ہے)۔(بخاری)
گویا ہمیں استحصال کرنے والے سے دبنے کی بجائے اپنا حق لینا ہو گا۔ استحصال کرنے والے کے خلاف اپنے مؤقف کوایثار اور احسان، درگذر اور عفو، بردباری اور تحمل سے خلط ملط کر کے بلیک میل ہوتے رہنے کی بجائے ظالم کو ظالم کہنا سیکھنا ہو گا خواہ وہ ہمارا رشتہ دار ہی کیوں نہ ہو اور خواہ وہ ہم خود ہی کیوں نہ ہوں۔ یقینا ہمیں ظالم کا ہاتھ ظلم سے روک کر اپنے بھائی اور اپنی نجات کو یقینی بنانے کے لئے سوچنا ہو گا۔ اللہ ہمیں ظالم کے خلاف کلمہ حق کہنے والا مجاہد بنائے۔ آمین