امریکی صدر جو بائیڈن نے پاکستان کو دنیا کا خطرناک ترین ملکوں میں سے ایک اور پاکستانی قوم کو بھی خطرناک قرار دیکر دراصل ہماری 74 سالہ دوستی نہیں بلکہ اس کے ساتھ وفاداری اور تابع داری پر طمانچہ مار دیا ہے ۔امریکی صدر نے مزید ہرزہ سرائی کرتے ہوئے کہا کہ پاکستان کے ایٹمی پروگرام کی کوئی تربیت نہیں۔ اور ہمارے اٹیمی اثاثوں کو غیر محفوظ قرار دیدیا، صدر بائیڈن اپنے خطاب کے دوران بھارت کے غیر محفوظ اٹیمی پروگرام کا ذکر تک نہیں کیا جس کا گذشتہ دنوں ایک میزائل پاکستانی سرحد میں آگرا تھا جو نہ صرف غیر ذمہ دارانہ عمل اور انتہائی غیر محفوظ ہے بلکہ اس کے ساتھ ساتھ بھارت کی جوہری ہتھیاروں کی حفاظت کے حوالے سے قابلیت پر بھی سوالات اٹھاتا ہے۔
نائن الیون کے بعد جس طرح پاکستان نے امریکہ کی نام نہاد دہشت کردی کی جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی کا کردار اد کیا اور جس کے نتیجے میں خودکش حملوں اور تخریب کاری کی شکل میں دہشت گردی کے بھیانک عذاب کی صورت میں سامنا کرنا پڑا جس میں ہماری سیکورٹی فورسز کے دس ہزار افسران اور جوانوں سمیت ملک کے 80 ہزار سے زائد شہریوں کی شہادتیں ہوئیں اور ہماری معیشت کو بھی 2 کھرب ڈالر کا نقصان برداشت کرنا پڑا۔ اتنی قربانیوں کے باوجود بھی ہمارے ساتھ امریکی تحفظات کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ امریکہ کو افغانستان سے بے نیل و نامراد لوٹنا پڑا تو افغان سر زمین پر اپنی اس ناکامی کا ملبہ بھی پاکستان پر ڈالنے کی کوششیں شروع کر دی ہیں اور اسی بات کو بنیاد بنا کر جو بائیڈن حکومت اب تک پاکستان کی حکومت سے تعلقات قائم کرنے سے گریزاں ہے اور نہ ہی جو بائیڈن نے عمران خان حکومت کے ساتھ کام کرنے میں کوئی دلچسپی دکھائی اور اب شہباز شریف حکومت کے ساتھ بھی امریکہ کا رویہ انتہائی سرد ہے۔ عالمی سامراجی قوتیں ایک عرصے سے پاکستان کو بدنام کرنے کی کوششیں کر رہی ہیں اور اسی وجہ سے پاکستان کا نام ایف اے ٹی ایف کی گرے لسٹ میں موجود ہے۔27شرائط میں سے 26 پوری ہونے کے باوجود پاکستان کا نام گرے لسٹ میں سے نہ نکالنا مغرب کی منافقت کو آشکار کرتا ہے کہ کیسے پاکستان کو پروپیگنڈے کی بنیاد پر نشانہ بنایا جا رہا ہے۔
در حقیقت پاکستان کا اٹیمی پروگرام اور اس کے جذبہ ایمانی سے لبریز پاک افواج دشمن کو کانٹے کی طرح چھبتی ہیں۔ 1987ء سے ہماری جوہری صلاحیت امریکی ہدف پر ہے، ہنود و یہود گٹھ جوڑ مسلسل( اللہ نہ کرے ) اس کو سلب کرنے میں سر گرم عمل ہیں۔ ’’میں کھٹکتا ہْوں دلِ یزداں میں کانٹے کی طرح ‘‘پاکستان کے ایٹمی پروگرام پر اس کا ہزار فیصد اطلاق ہوتا ہے۔ اب یہ کوئی امریکہ عالمی بد معاش سے کوئی پوچھے کہ 1798ء سے آ ج تک کس ملک نے 469 مرتبہ فوجی مداخلتیںکی ہیں؟ کیوبن سفیر کا کہنا تھا کہ کس ملک نے شہریوں پر ایٹم بم استعمال کئے؟ اور دوسروں پر غیر انسانی پابندیاں کون لگا رہا ہے؟۔ دراصل ہمیں ڈی نیو کلیئرائزڈ کرنا ہی دشمن کا ہدف ہے اور اس کیلئے مضبوط فوج کے پہرے کو ہٹانے کیلئے ڈی ملٹرائزیشن کی جائے گی۔ آج موجودہ خطر ناک منظر نامہ اس کی عکاسی کر رہا ہے۔ پاکستان کو ایٹمی قوت کے اعزاز سے محروم کرنے کیلئے داخلی تصادم، لاقانونیت اور سیاسی عدم استحکام بھی حکمت عملی کا حصہ ہے، چنانچہ اس تناظر میں پاکستان کے قومی سلامتی و دفاعی اداروں کے کاندھوں پر بھاری ذمہ داری آن پڑی ہے۔ کیونکہ عالمی صہیونی اسٹبلیشمنٹ پاکستان میں عسکری و سیاسی اداروں کا ٹکراؤ چاہتی ہے اور سیاست دانوں کے ذریعے قومی دفاعی اداروں کو کمزور کرنا عالمی صہیونی ایجنڈہ ہے۔
قبل ازیں قومی اٹیمی اثاثوں پر تسلط کیلئے منصوبے کے مطابق یہاں شیعہ سنی فساد کروایا گیا اور اب سیاسی بنیادوں پر سیاسی و عسکری اداروں کو باہم الجھانے کی کی سازش تیار کی گئی ہے۔ تاکہ پاکستان کے دفاع کے ضامن ادارے داخلی تنازعات میں پھنس کر رہ جائیں۔ پاکستان میں سابق امریکی سینیٹر لیری پریسلر سے کون واقف نہیں یہ وہی ہے جس کی پریسلر ترمیم نے پاکستان پر امریکی پابندیوں کی راہ ہموار کی تھی نے 1994ء میں دورہ بھارت کے موقع پر بھارت کے ایٹمی قوت بننے کی تعریف کی اور پاکستان کے خلاف اپنے خبثِ باطن کا اظہار ان الفاظ میں کیا تھا ’’پاکستان نے ایٹم بم بنایا تو پاکستانیوں کو یہ بم اپنی شاہراہوں، چوراہوں پر ہی پھوڑنا ہوگا‘‘ الحمداللہ، پاکستان ایٹمی قوت ہے۔ اس کے حوالے سے کمان اینڈ کنٹرول کی ساری دنیا معترف ہے۔ ملکی اداروں کے بارے میں غلط پروپیگنڈہ اور نعرے بازی قابل مذمت اور جمہوریت کی منافی عمل ہے۔ دراصل ٹویٹر، فیس بک سمیت تمام سوشل میڈیا پر قومی سلامتی کے اداروں کیخلاف جاری مذموم مہم سے دشمن کوہی فائدہ پہنچایا جارہا ہے۔ ملک دشمن عناصر کے مذموم مقاصد یہی ہے کہ پاکستان کے ملکی و قومی سلامتی کے اداروں کو کمزور کرکے پاکستان کے ایٹمی پروگرام اور اثاثوں کو منجمد کرکے پاکستان کو بھارت کا تابع مہمل ملک بنا دیا جائے۔ سابق وزیر اعظم عمران خان نے اقتدار سے محرومی کے بعد عوامی جلسوں میں اپنے خطابات کے دوران قومی و ملکی سلامتی کے اداروں کو ہدف تنقید بناتے ہوئے جو لب و لہجہ اختیار کیا ہے وہ وہ انتہائی عامیانہ ہے۔
پاک فوج جیسے اہم ادارے کے اندرتقسیم اور پھوٹ ڈالنے کی کوشش کی جارہی ہے۔ عساکر پاکستان کی تذلیل کا سلسلہ ہنوز جاری ہے۔ بلوچستان لسبیلہ ہیلی کاپٹر حادثے کے بعد سوشل میڈیا پر پاک فوج کے شہدا کے خلاف ٹرولنگ کی گئی وہ انتہائی شرمناک ہے جبکہ دوسری جانب پاک فوج کے شہدا کے خلاف مذموم مہم پر ایف آئی اے کی تحقیقات میں یہ انکشافات منظر عام پر آئے ہیں جن کے مطابق کل 580 اکاؤنٹس کی چھان بین کی گئی، 178 اکاؤنٹس پر پی ٹی آئی کا جھنڈا یا نشان پائے گئے۔ 18 بھارتی اکاؤنٹس بھی شہدا کے خلاف مہم میں شامل تھے، شناخت شدہ اکاؤنٹس کی تعداد 168 اور جعلی اکاؤنٹس کی تعداد238 ہے، 33 اکاؤنٹس دوسرے ممالک سے چلائے جارہے تھے۔ آج وطن عزیز جن سنگین حالات سے دوچار ہے اور جس طرح سامراجی قوتوں کے عزائم کے تحت ایٹمی ٹیکنالوجی کی شکل میں موجود ہمارے دفاعی حصار میں نقب لگانے اور ساتھ ہی ساتھ قومی اتحاد و یکجہتی کو پارہ پارہ کرنے کی سازشیں جاری ہیں، اسکے پیش نظر ہمیں پہلے سے بھی زیادہ چوکس، مستعد اور دشمن کی ہر سازش سے باخبر رہنے کی ضرورت ہے۔ افسوس! حکمران کرسی کے حصول کے تگ ودو میں مصروف ہیں تو دوسری جانب ہنود و یہود گٹھ جوڑ ہماری قومی سلامتی و سا لمیت پر کاری ضرب لگانے کیلئے سرگرم عمل ہے ۔