دنیا میں نہ کوئی ہیرو ہوتا ہے نہ ہیروئن ،کوئ پیارا ہوتا ہے ناں ہی جان کا ٹکڑا نہ کوئی کسی کے لئے مرتا ہے اور نہ ہی کوئی کسی پر مرتا ہے دنیا میں نہ کوئی عزیز ہے نہ رقیب نہ ادنیٰ ہے نہ اعلیٰ نہ غنی ہے نہ محتاج نہ امیر ہے نہ غریب نہ آقا ہے نہ غلام نہ فقیر نہ ساہو کار نہ محبت ہے نہ محب نہ محبوب غرض یہ کہ اس فانی دنیا میں جو کچھ بھی ظاہر ہے بس وہی ہے میرے والد کہا کرتے تھے
آنکھ اوجھل تے پہاڑ اوجھل،،،،
میں سوچا کرتی کہ ایسا کیسے ہوتا ہے پہاڑ تو پہاڑ ہے ایک بھاری جسامت بلند وبالا اعلیٰ وارفع وہ بھلا کیسے اوجھل ہو سکتا ہے وہ کوئی باریک سی سوئ تھوڑی ہے جو اوجھل ہو جائے وہ تو پہاڑ ہے، مگر دنیا کو ابھی بھی بہت کم جانا مگر جتنا بھی جانا معلوم ہوگیا کہ
پہاڑ بھی اللہ کے خوف سے ریزہ ریزہ ہو کر سرمہ بنتے دیکھے،،،
اپنے پیاروں کے ساتھ منوں مٹی میں دفن ہونے کی خواہش کرنے والوں کو بھی ان کی تدفین کے بعد بہت طمطراق سے تعزیت وصول کرتے اور بریانیاں کھاتے کھلاتے دیکھا اور مرنے والوں کی یاد میں کبھی کبھار محض ایک لفظ بھی سنا
اللہ جنت نصیب کرے،،،
اور بس پھر اگلا موضوع
نور کے تڑکے اٹھ کر اپنے شوہر اور بچوں کے لیے کہپتی ہوئی ماں بھی دیکھی خود بھوکی رہ کر انہیں کھلاتی، خود گیلے پر سوکر انہیں خشک جگہ سلاتی، اپنے سونے کے بندے بیچ کر گھر کی چھت ڈلواتی ہوئی اپنے کنگنوں کے عوض شوہر کو کاروبار کی مد میں رقم فراہم کرتی ہوئی، خود اذیت سہہ کر خوشی پہنچاتی ہوئی تمام دن کھانا بنا کر دیتے ہوئے بھوکے پیٹ سوتی ہوئی، جب تھک کر قبر میں سوگئی تو اس کے جاتے ہی اک نئی عورت بطور ماں موجود دیکھی اس کے اور جانے والی کے موازنے بھی دیکھے دامے درمے سخنے بھی دیکھے مگر نہ دیکھی تو اس پہلی والی عورت کے لیے کوئی جاری رہ جانے والے عمل کی کوشش،،،
سحر کے طلوع ہوتے سورج کے ساتھ ساتھ سفر کرتے اس باپ کو بھی دیکھا کہ جس کی تمام تر سعی و جہد اپنے والدین، بیوی، بچوں عزیز واقارب کے لئے تھی خود دھوپ میں جلتے ہوئے بدن سے پنکھوں،اے سی اور کولروں کے بل بھرتے ہوئے ،دوا علاج ،تعلیم ،جہیز،بری شادی کے کھانے کی فکروں میں بالوں میں سفیدی اترتے اترے قبر میں اتر جانے کو بھی دیکھا کہ جس کے مرنے کے بعد تقابلی جائزے بھی دیکھے کہ ابا جی یہ کر سکتے تھے مگر نہ کیا ہم یہ لے سکتے تھے مگر نہ لینے دیا ہم زیادہ بہتر زندگی گزار سکتے تھے مگر نہ گزار سکے یا پھر بہت اچھے تھے بہت پیار دیا ان کے بنا جیا نہیں جاتا مرحوم کے پوتے پوتیوں نواسے نواسیوں کی شادیوں میں حلق تک بھر کر کھانے اور کھلانے والے ان نوالوں کو یاد کرتے رہے کہ جو مرحوم نے اپنے منہ کے بجائے ان کے شکم کی نذر کر دئیے تھے بس ہوگئ قدر افزائی،،،
جان نچھاور کرنے والی بیوی کی موت ہو یا گھر کے لیے سب کچھ دان کر دینے والی کنواری بڑی بیٹی یا بیٹے کی موت ،پیار کرنے والے نانا،دادا ہوں یا کوئی اور جسے ہم جان سے عزیز،ناگزیر اور نجانے کیا کیا کہتے ہیں ان کے جانے کے بعد بھی بس صرف کہتے ہی رہتے ہیں کبھی ہم نے ان کے لئے کچھ کیا؟
کچھ ایسا کہ جیسے وہ زندہ تھے تو انہوں نے ہمارے لئے کیا،
ہمارے کالج کی فیس ہمارے درد کی دوا ہمارے زخموں کا مرہم، ہماری تنہائی کا تدارک، ہمارے کپڑے جوتوں، کاپی، کتابوں، جہیز، بری، فرمائشی لسٹوں کی قیمتوں کی ادائیگی ،،،
آج ان کی قبروں کی وحشت، تاریکی، تنہائی، مشقت، مشکل، عذاب، چبھن، تنگی کی دوا، علاج یا مداوا کیا ؟
محض کبھی کبھار کی یاد اور فقط ایک لفظ
اللہ جنت نصیب کرے
کافی ہے؟؟
جتنی ان جانے والوں نے ہم پر محنت کی اور جتنی ہم اپنے چاہنے والوں کے لیے محنت کر رہے ہیں اس کے صلے سے آگاہ ہیں ہم؟
اک تلخ ترین حقیقت ہے اگر احساس ہوا تو ان تمام کاموں میں اپنے لیے اپنی کل کے اس ابدی ٹھکانے کی عافیت،سلامتی اور آرام کے لئے بھی اپنے لمحوں میں ،کاموں میں،پیسوں میں،جان میں حصہ رکھئے ایک نوالہ اپنے بچوں کے منہ میں ڈالنے کے ساتھ ہی ایک نوالہ،ایک سوٹ ایک فیس ایک برگر ایک تقریب،ایک آسائش اپنی اس قبر کی بھوک کے لئے بنا کر الخدمت فاؤنڈیشن میں ڈال دیں تاکہ وہ جاری رہنے والے صدقات میں شامل ہو کر آپ کو اس کسمپرسی کی حالت سے بچالے
اپنے پیاروں کو وقت، لمحے، دن دیتے ہوئے ایک گھڑی ایک پہر ایک گھنٹہ، ایک خوبصورت حرفِ دعا دے دیجئے
آئیں اپنے پیاروں کو حقیقی معنوں میں پیار کے مطالب اور مدارج سمجھادیں تاکہ ہمارے جانے کے بعد ہم سے محبت کرنے والے محض ایک جملے
“اللہ جنت نصیب کرے”
کے ساتھ ایک پوری وہ زندگی گزارنے کی کوشش کریں کہ جس کے عوض جنت قریب کر دی جاتی ہے اپنے حصول کے لیے تھک کر آنے والوں کے لیے ان کے انتقال کر جانے والوں کے لیے
اور ان کے زندہ رہ جانے والے زندگی میں اس دور دجل میں اللہ تعالیٰ کے نازل کردہ عذابوں سے بچ جائیں۔
اپنے حسن اخلاق کی طاقت سے اس شہر کو بھی روشن منور اور فراخ ہونے کا موقع دیں اور اپنی قبروں میں اس حق کی “شہادت ” کے اس سچ کی گواہی کے جگنو روشن کر دیجئے
ہمارے ایک گناہ سے ایک غلط عمل سے ہماری قبروں میں ایک بچھو کے پیدا ہونے کی باتوں سے بہت ڈر لگتا ہے ناں ہمیں تو اس بچھو کو ان گناہوں کو اپنی نیکیوں سے پھولوں میں بدل دیجئے اور اپنے جانے کے بعد اپنے پیاروں کو ایک مقصد کی جدوجہد کے لئے صدقہِ جاریہ بننے کی راہ دکھلا دیجئے تاکہ ہر پیارا رب العالمین کے لیے جئے اس کا کھانا، کمانا، کھلانا، ہنسنا، ہنسانا، پڑھانا، جاگنا، جگانا سب کچھ اللہ ربّ العزت ہی کے لئے خالص ہو جائے یہی ہماری وہ شاندار کامیابی ہوگی جس پر ہم دنیا میں بھی ناز کریں گے اور آخرت تو ہماری ہی ہے۔ ان شاءاللہ۔