دوسرا وہ گھر خدا کا

 

اسراء اور معراج كى شب اللہ عزوجل كى ان عظيم الشان نشانیوں ميں سے ہے جو نبی کريم صلی اللہ عليہ وسلم كى صداقت اور اللہ کے نزديک آپ کے عظيم مقام و مرتبہ پر دلالت کرتی ہے، نيز اس سے اللہ عزوجل كى حيرت انگیز قدرت اور اس کے اپنی تمام مخلوقات پر اعلیٰ و ارفع ہونے کاثبوت ملتا ہے۔

اللہ تعالى نے فرمايا: سُبْحَانَ الَّذِي أَسْرَى بِعَبْدِهِ لَيْلًا مِنَ الْمَسْجِدِ الْحَرَامِ إِلَى الْمَسْجِدِ الْأَقْصَى الَّذِي بَارَكْنَا حَوْلَهُ لِنُرِيَهُ مِنْ آيَاتِنَا إِنَّهُ هُوَ السَّمِيعُ الْبَصِيرُ (بنی اسرائیل، آیت نمبر 1)

پاک ہے وہ جو رات کے ایک حصے میں اپنے بندے کو مسجد الحرام سے مسجد الاقصیٰ تک لے گیا جس کے اردگرد کو ہم نے بہت برکت دی ہے، تاکہ ہم اسے اپنی کچھ نشانیاں دکھائیں۔ بلاشبہ وہی سب کچھ سننے والا، سب کچھ دیکھنے والا ہے۔

اس آیت مبارکہ میں اللہ تبارک تعالی نے اپنے دو مقدس گھروں مسجد الحرام اور مسجد الاقصی کا ذکر کیا ہے مسجد الحرام وہ پہلا گھر ہے جو اللہ تعالی کی عبادت کے لیے تعمیر ہوا جبکہ دوسرا مسجد الاقصی ہے جیسا کہ اس حدیث نبوی محمد صلى الله عليه وآلہ وسلم سے ہمیں پتا چلتا ہے۔

سیدنا ابوذر رضی اللہ عنہ نے نبی کریم ﷺ سے سوال کیا یارسول اللہ! کرۂ ارض پر سب سے پہلی مسجد کون سی تعمیر کی گئی؟ آپﷺ نے فرمایا: مسجدالحرام، پھرعرض کیا دوسری کون سی مسجد تعمیر ہوئی؟ آپﷺ نے فرمایا: مسجدالاقصیٰ، انہوں نے سوال کیا ان دونوں کی تعمیر کے درمیان کتنا عرصہ ہے؟ آپﷺ نے فرمایا: چالیس سال۔ (صحیح بخاری:۳۳۶۶،مسلم:۵۲۰)

جیسے مسجد الحرام کی اہمیت و فضیلیت ثابت ہے بعینہ مسجد الاقصی کے مقدس اور بابرکت ہونے میں بھی کوئی دو را؎ئے نہیں ہے۔ متعدد قرآنی آیات اور احادیث مسجد الاقصیٰ کی فضیلیت اور اہمیت پر دلیل ہیں۔

مسجد الاقصی مسلمانوں کا قبلہ اول ہے۔ خاتم النبیین حضرت محمد صلى الله عليه واله وسلم نبوت کے تیرہ سالہ مکی دور میں اور ہجرت کے بعد سولہ یا سترہ ماہ تک صحابہ اکرامؓ کے ساتھ تحویل قبلہ کا حکم آنے تک مسجد اقصٰی ہی کی جانب رخ کر کے نماز ادا کرتے رہے۔

مسجد الحرام اور مسجد نبوی محمد صلى الله عليه واله وسلم کے ساتھ ساتھ یہ ہی وہ مقام ہے جس کے لیے برکت اور ثواب کی نیت سے سفر کیا جا سکتا ہے۔ زمین کی پشت پر یہ ہی وہ واحد جگہ ہے جس میں ایک ہی وقت میں تمام انبیاء کرام کا اجتماع ہوا اور تمام انبیائے کرام علیھم السلام نے ہمارے رسول حضرت محمد صلى الله عليه واله وسلم کی اقتدا میں نماز پڑھی، یہ اعزاز کسی اور جگہ کوحاصل نہیں ہے۔ مزید براں مسجد الاقصیٰ میں پڑھی جانے والی نمازوں کا ثواب دو سو پچاس نمازوں کے برابر ہے۔

مسجد الحرام کی تعمیر حضرت آدم علیہ السلام نے کی اور بعد ازاں حضرت ابراہیم اور حضرت اسماعیل علیھم السلام نے انہی بنیادوں پر دوبارہ اسے تعمیر کیا۔

مسجد الاقصیٰ کے ضمن میں بعض مورخین حضرت یعقوب علیہ السلام کو مسجد الاقصی کا بانی قرار دیتے ہیں مگر اوپر بیان کردہ صحیح البخاری کی حضرت ابوذرؓ کی روایت کردہ حدیث سے بآسانی اخذ کیا جا سکتا ہے کہ مسجد الاقصیٰ کے بانی بھی خود جناب آدم علیہ السلام ہی ہیں اور بعد میں آنے والے انبیائے اکرام، اقوام اور حکمران محض اس کی تعمیر نو کرنے والے ہیں۔

مسجد اقصیٰ کی اسی تجدیدی تعمیر میں حضرت ابراہیم، حضرت اسحق، حضرت یعقوب، حضرت داؤد اور حضرت سلیمان علیھم السلام کے نام تاریخی کتب میں مختلف آرا کے ساتھ موجود ہیں۔

حضرت سلیمان علیہ السلام کی تجدیدی تعمیر کو یہود ہیکل سلیمانی کا جواز بنا کر پیش کرتے اور اسی جگہ ہیکل سلیمانی کے وجود کا بےبنیاد دعویٰ کرتے ہیں جبکہ مسجد اقصی سے نیچے کھدائیوں کے باوجود آج تک کسی دوسری عمارت کا کوئی نام و نشان انہیں نہیں مل سکا۔ یوں ان کی اپنی تحقیق بھی یہی ثابت کرتی ہے کہ انبیائے کرام علیھم السلام کے ادوار سے اس بابرکت مقام پر مسجد الاقصیٰ ہی کا وجود ہے اور مسلم اُمہ کو تو معلوم ہونا ہی چاہیے کہ انبیائے کرام مساجد ہی تعمیر فرماتے تھے ہیکل نہیں لیکن افسوس کہ آج ہم مسلمان مسجد الحرام کو تو اپنا سمجھتے ہیں مگر مسجدالاقصی بھی ہماری ہی قیمتی میراث ہے کو سمجھنے اور جاننے سے قاصر ہیں۔ ہم اپنے منصب کو سمجھ ہی نہیں پا رہے کہ ہم ہی امت وسط ہیں۔ ہم ہی انبیائے کرام اور مسجد الحرام، مسجد نبوی محمد صلى الله عليه واله وسلم اور مسجد الاقصیٰ کے حقیقی وارث ہیں۔ جہاں ہم اپنے فرائض سے کوتاہی کے مرتکب ہو کر انسانیت کو مادہ پرستی کی جہالت میں ڈوبتا دیکھ کر خاموش ہیں وہیں مسجد الاقصی کے پنجہ یہود میں جکڑے جانے پر بھی ہم پر غفلت کا عجب سکتہ طاری ہے۔

آج صورتحال یہ ہے کہ ہماری اس مقدس عبادت گاہ کا تقدس آئے دن یہود کے ناپاک اور مغضوب وجود سے پامال ہو رہا ہے۔ نصاریٰ ان کی پشت پر ان کے نگہبان بن کر کھڑے ہیں۔ کفار عالم تماش بین ہے اور ہم انتشار کا شکار، اپنی تاریخ اپنی میراث سے بے خبر اور بے پروا زندگی کی صبحیں اور شامیں بے سمت و بےمقصد گزار رہے ہیں۔ فقط چند نہتے فلسطینی یہود کے ناپاک عزائم کی راہ میں رکاوٹ بن کر کھڑے ہیں۔

یہاں ایک لمحہ ٹھہر کر چشم تصور میں ایک منظر لائیے۔

آپ کا بھائی اپنے آبا و اجداد کے زمانے سے بنائے گھر (گھر جس میں آپ کا حصہ بھی ہے) میں آرام سے رہ رہا ہے۔ اچانک کچھ لوگ چند اجنبیوں کو اپنا ہمنوا بنا کر اس گھر کے پورچ میں داخل ہوتے ہیں اور دعویٰ کرتے ہیں کہ پورچ ان کا ہے پھر رفتہ رفتہ وہ مسلح ہو کر لاؤنج میں گھستے ہیں پھر کمروں پر قبضہ جماتے ہیں۔ رفتہ رفتہ وہ بقیہ گھر بھی ہتھیا رہے ہیں اور آپ کے بھائی کو مجبور کر رہے ہیں کہ وہ اس گھر سے نکل جائے اس کشمکش میں آپ کی ڈیڑھ سال کی کلکاریاں مارتی بھتیجی ان کی گولی کا نشانہ بن کر سسکتے ہوئے مر چکی ہے کیونکہ ان لوگوں کے مقابلے کے لیے آپ کے بھائی کے پاس کوئی اسلحہ نہیں وہ اپنے بیوی بچوں کے ساتھ مل کر گھر میں موجود چمچ اور چپل جیسی چیزوں کے ساتھ ان کا مقابلہ کر رہا ہے۔

ایسے میں آپ کا بھائی مسلسل اپنے اور آپ کے گھر پر قابض ہوتے دشمن کا مقابلہ کرنے کے لیے آپ کو آوازیں دے رہا ہے۔ مدد کے لیے بلا رہا ہے۔

لیکن آپ اس کی مدد کو نہیں جا رہے

کیوں؟

یا تو آپ سرے سے اس واقعے سے لاعلم ہیں یا آپ نے اپنے اور بھائی کے دشمنوں سے گٹھ جوڑ کر لیا ہے۔ اپنے کسی ذاتی مفاد کے لیے پرکھوں کی امانت گھر اور اپنے پیارے بھائی کو دشمنوں کے ہاتھ بیچ دیا ہے۔

بالکل ایسی ہی صورتحال فلسطین ( ہمارے گھر)، فلسطینی(ہمارا بھائی اور اس کے بیوی بچے) اور ہماری (تمام عالم اسلام اور ہم پاکستانی بالخصوص) ہے جو دشمن (اسرائیل) کے خلاف نہتے مسجد اقصی کی حفاظت کے لیے ہم سب کی جنگ لڑ رہے ہیں۔

اب سوچیے ہم اہل فلسطین جو مسجد اقصی کی حفاظت کے لیے سر پر کفن باندھے ہوئے ہیں کہ ساتھ کیوں نہیں کھڑے؟

کیا ہم نے مسجد اقصیٰ اور اہل فلسطین کو اپنے دنیاوی آرام و آسائش کے عوض یہود کے ہاتھوں فروخت کر دیا ہے؟  اگر نہیں تو پھر ہم یقیناً حالات کی سنگینی سے ناواقف ہیں۔  یہود مسلسل فلسطین و شام، مسجد اقصیٰ اور اس کے گردونواح میں موجود مقدس سر زمین پر قابض ہو رہے ہیں۔ یہ سب

زور و شور سے ہو رہا ہے مگر کیا کبھی گھر، اسکول، کالج، جامعات، ٹیوشن یا قرآن پڑھانے والے اساتذہ، دینی ادارے، مساجد کے منبر، ٹی وی چینلز یا کسی بھی قسم کے جلسے جلوسوں میں سے کبھی مسجد اقصیٰ کے حوالے سے بات ہوئی۔ سروے کر لیں 99.99 فی صد جواب نہیں میں ملے گا۔

ہمیں چونکہ مسجد اقصیٰ ہی کی بات کبھی سنے کو نہیں ملی تو وہاں کے حالات کو سمجھنا، ان حالات کی سنگینی کو جانچنا اور پھر اس نمٹنے کے لیے اٹھ کھڑے ہونا تو بڑی دور کی بات ہے۔

یاد رکھیے! لاعلمی خود ایک بہت بڑا گناہ ہے۔ اپنے آپ کو اور اپنے بچوں کو مسجد اقصیٰ کی اہمیت وفضیلیت اور اس سے متعلق یہود کے ناپاک عزائم کا علم دیں۔

سنیں تو سہی

فلسطین کی سپریم اسلامی کونسل کے رہنما اور خطیب مسجد اقصیٰ عکرمہ صبری اور وہاں کے دیگر علماء مسلسل مسلم دنیا کے نام پیغامات اور تنبیہات نشر کر رہے ہیں،

خطیب مسجد اقصیٰ عکرمہ صبری نے اپنے حالیہ بیان میں بھی تمام امت کو پکارا ہے۔

مکمل تیاری کے ساتھ مسجد اقصیٰ کا دفاع اور اس پر پہرہ دینا وقت کی ضرورت ہے، اور یہ ذمہ داری صرف مقدسیوں (اہل قدس) کی نہیں بلکہ تمام عرب اور اسلامی ممالک بھی اس میں برابر کے ذمہ دار ہیں۔

آئیں ہم سب مل کر مسجد اقصیٰ کے علماء اور خطباء کی آواز پر اس دعا کے ساتھ لبیک کی صدائیں بلند کریں کہ اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ملک خدادا پاکستان کے باشندے مسجد اقصٰی کی صف اول کے محافظ ثابت ہوں۔ آمین ثم آمین۔