اولاد کی خواہش ایک فطری جذبہ ہے یہی جذبہ والد بننے کے بعد شفقت و محبت کا روپ دھار لیتا ہے۔ ایک مثالی شخص والد بننے کی تمنا اس لئے کرتا ہے کہ ایک صالح اولاد کے ذریعے تا قیامت بھلائیوں کو اس کے نامہ اعمال میں لکھا جاتا رہے۔ حضرت ابراہیم علیہ یوں دعا کرتے ہیں۔رب ھب لی من الصالحین۔ فبشرنٰہ بغلامٍ حلیم۔ (سورة الصٰفّٰت)
اسحاق علیہ السلام کی خبر بھی اللہ تعالیٰ اپنے بندے کی خواہش کے مطابق یوں دیتا ہے۔
ابراہیم کو ہم نے بشارت دی اسحاق کی جو نیکو کار ہوگا ، نبی ہوگا اور برکت دی ہم نے اس پر اور اسحاق پر،،
ابراہیم علیہ السلام اس نعمت پر ایک بہترین والد کی مثال بنتے ہوئے یوں شکر گزار ہوتے ہیں:- تمام تعریفیں اس اللہ کیلئے ہیں جس نے مجھ کو بڑھاپے میں اسماعیل اور اسحاق عطا کئے۔
الحمد للہ الذی وھب لی علیٰ الکبر اسمٰعیل و اسحٰق ان ربی لسمیع الدعاء(سورہ ابراہیم )
حضرت زکریا علیہ السلام کا کردار بھی مثالی باپ کی نشانی ہے۔فرماتے ہیں:-رب ھب لی من لّدنک ذرّیّةً طیّبةً ۔ ( آل عمران ) اے میرے پروردگار ! تو اپنے پاس سے مجھے پاکباز اولاد عطا فرما۔
دوسری جگہ ارشاد ہے :جب انہوں نے چپکے چپکے اپنے رب سے دعا کی ،میرے پروردگار ! میری ہڈیاں کمزور ہو گئی ہیں ، سر کے بال سفید ہو گئے ہیں، میری بیوی بانجھ ہے ، لہٰذامجھ کو اپنی طرف سے ایک ایسا وارث عطا فرما دیجئے جو میرا جانشین اور خاندان یعقوب کا وارث ہو اور میرے پروردگار ! اس کو پسندیدہ شخص بنا دیجئے ۔ (سورہ مریم )
باپ ایسا لفظ ہے جو شفقت سے عبارت ہے۔باپ بنتے ہی پرورش وتربیت کی ذمہ داریوں میں اضافہ ہوتا ہے۔ پدرانہ شفقت عموما یہ ذمہ داریاں نہایت رحمدلی سے ادا کرتی ہے۔ تا ہم تربیت اولاد کے سلسلے میں والد عموما کسی آئیڈیل کے متلاشی رہتے ہیں تا کہ اولاد کی شخصیت کی پرداخت اور محفوظ مستقبل کو یقینی بنا سکیں۔آئیے،ایک مثالی باپ کی زندگی کا مطالعہ کر کے اس کی سیرت کی روشنی میں والد کے لئے نمونہ پیش کرتے ہیں۔
عبداللہ رضی اللہ عنہ کہتے ہیں کہ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: اللہ تعالیٰ اس شخص پر رحم نہیں کرتا یعنی اس کو اپنی خاص و کامل رحمت کا مستحق نہیں گردانتا جو لوگوں پر رحم نہیں کرتا۔ (بخاری و مسلم) یہ خاص طور پر اس والد کے لئے تازیانے کی حیثیت رکھتی ہے جو نادانی میں مار پیٹ کا حربہ اپنا کر اولاد کی بھلائی کا خواہاں ہوتا ہے۔ بے شک بچے کی عزت نفس کو کچلنا اور دوسروں کی موجودگی کا بھی لحاظ نہ کرنا اس کی شخصیت میں اعتماد کو ختم کر دیتا ہے۔
حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا کہتی ہیں کہ ایک دن نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی خدمت میں ایک دیہاتی حاضر ہوا اور جب اس نے صحابہ کو دیکھا کہ وہ بچوں کو چومتے اور پیار کرتے ہیں، تو کہنے لگا کہ کیا تم لوگ بچوں کو چومتے ہو ؟ ہم تو بچوں کو نہیں چومتے، نبی کریم صلی اللہ علیہ وسلم نے یہ بات سن کر فرمایا: کیا میں اس بات پر قادر ہو سکتا ہوں کہ اللہ تعالیٰ نے تمہارے دل میں سے جس رحم و شفقت کو نکال لیا ہے اس کو روک دوں (بخاری و مسلم)
حضرت فاطمہ رضی اللہ عنہا اور علی رضی اللہ عنہ کو دعا دیتے ہوئے فرمایا، اللہ تعالیٰ تم دونوں کو دلجمعی اور حسن رفاقت عطا فرمائے، تم دونو ں کو خوش نصیب بنائے، تم دونوں پر برکتیں نازل فرمائے اور پاکیزہ اولاد عطا فرمائے۔ گویا اولاد جوان ہو جائے تو بھی والد کی خصوصی دعاؤں اور محبتوں کی محتاج رہتی ہے لہٰذا اچھا والد اولاد کے ان جذبات کا لحاظ رکھتے ہوئے اولاد کو مایوس نہیں ہونے دیتا ہوں اولاد بھی دل کی گہرائیوں سے والد کے لئے دعائیں کرتی ہے جو اس کی دنیا و آخرت سنوار دیتی ہیں۔
مسلم کی ایک حدیث میں نبی مہرباں کی پدرانہ شفقت کا ذکر کسی صحابی کی زبانی یوں ہے کہ “ابراہیم (نبی کے فرزند) مدینہ کے بالائی مضافات میں دودھ پیتے تھے۔ انحضرت وہاں تشریف لے جاتے اور ہم۔ اولاد سے تعلق اتنا شدید اور جذبات میں ایسی ہی وارفتگی والد کے لئے مطلوب ہے جیسا کہ اس روایت میں آپ کی سیرت سے عیاں ہے۔ امام مسلم نے ابو ہریرہ سے روایت نقل کی ہے کہ انہوں نے بیان کیا “میں رسول صلی اللہ علیہ وسلم کے ساتھ دن کے ایک حصے میں روانہ ہوا۔ نہ تو آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے مجھ سے گفتگو فرمائی اور نہ ہی میں نے کچھ عرض کیا یہاں تک کہ آپ صلی اللہ علیہ وسلم بنو قینقاع کے بازار میں تشریف لائے۔ پھر وہاں سے چلے آئے یہاں تک کہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کے گھر (کے دروازے پر) پہنچے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم نے (وہاں پہنچ کر) فرمایا اثم لکع؟ اثم لکع؟ کیا وہاں چھوٹو ہے کیا وہاں چھوٹو ہے؟
ہم نے گمان کیا کہ ان کی والدہ نے انہیں نہلانے دھلانے اور خوشبو کا ہار پہنانے کے لئے روک رکھا ہے۔ تھوڑی ہی دیر میں وہ دوڑتے ہوئے آئے یہاں تک کہ ان دونوں (یعنی آنحضرت اور حسن رضی اللہ عنہ نے آپس میں معانقہ کیا) پھر آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا اللھم فی احبہ فاحبہ و اَُحبب من یحبہ۔
مثالی والد اولاد کی دنیا ہی کے لئے سر توڑ کوشش نہیں کرتا بلکہ آخرت کی فکر بھی اسے بے چین رکھتی ہے۔ دنیا کا مثالی باپ بھی اپنی محبوب ترین بیٹی کے لئے ایک طرف یہ جذبات رکھتا ہے جیسا کہ مسرور بن مخزمہ سے روایت ہے کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا: کہ فاطمہ میرے جسم کا ایک حصہ ہے جو اسے ناراض کرے گا وہ مجھے ناراض کرے گا “دوسری طرف وہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کو نصیحت کرتا ہے۔ یافاطمة بنت محمد ! انقذی نفسک من النار فانی لااملک لک من اللہ ضراً ولا نفعاً ترجمہ: اے محمد کی بیٹی فاطمہ ! اپنے آپ کو جہنم سے بچا، کیونکہ میں اللہ کی طرف سے تمہارے لئے نفع و نقصان کا مالک نہیں ہوں۔ قرآن نے اس مثالی باپ کے حق میں گواہی یوں موجود ہے۔ لقد كان لكم في رسول الله أسوة حسنة۔ اللہ ہمیں اسی اسوہ کے مطابق اپنی زندگیاں ڈھالنے کی توفیق دے۔آمین