وہ کون سا رشتہ ہے جو دو مختلف مزاج، ماحول، علاقے، نسل، برادری کے لوگوں کو جوڑتا ہے؟ یقینا رشتہ نکاح اور یہی وہ رشتہ ہے جو جتنا پائیدار اور مستحکم ہو گا اتنے ہی مستحکم اور شاد آباد ملک کا پیش خیمہ ہو گا۔ مرد کو بیک وقت چار تک بیویاں رکھنے کی اجازت ہےآپ ﷺ کو اس عام اجازت سے استثنیٰ حاصل تھا کیونکہ اشاعت اسلام اور ترویج خیر کا کام وسیع دائرہ اثر کا متقاضی تھا، قبائل سے روابط بڑھانے کی ضرورت تھی، ان کے سامنے اپنا اخلاق وکردار پیش کرنے کی ضرورت تھی۔ جویریہ رضی اللہ عنہا سے نکاح کی بدولت ہی بنو مصطلق کا پورا قبیلہ اسلام لے آیا۔ زینب رضی اللہ عنہا سے نکاح کر کے رسم جاہلیت کو توڑا گیا اور تالیف قلب کی گئی۔ عائشہ رضی اللہ عنہا سے نکاح نے جہاں ابوبکر رض سے تعلق کو مضبوط کیا وہاں آپﷺ کو ایک ایسی خوبرو اور ذہین دوشیزہ کی رفاقت ملی جس نے آپ ﷺ کی صحبت سے بھرپور فائدہ اٹھایا۔ یہاں تک کے کبار صحابہ حدیث و فقہ کا درس لینے آپ رض کے پاس آتے۔
مختلف گھرانوں، نسلوں اور طبقات کے باہمی تعلقات اور ایک ہی گھر کے بچوں کا معاشرے سے ربط اور رسوخ نکاح کے ذریعے ہوتا ہے۔ ہم کہہ سکتے ہیں کہ نکاح وہ عمل ہے جو مختلف خاندانوں کے علم، فہم وفراست، خوبیوں اور مہارتوں کو خاندان کی صورت ایک چھتری تلے جمع کر دیتا ہے۔ گویا اب خاندان کے ہر فرد کے دائرہ اثر میں کم از کم اتنے افراد کا اضافہ ہو جاتا ہے جو فرد کے خود اپنے اور بہن بھائیوں کے رشتہ مصاہرت کے تحت خاندان سے جڑتے ہیں۔ یعنی خاندان معاشرے میں تبدیلی کی لہر کی سب سے چھوٹی لیکن مستحکم اکائی ہے بشر طیکہ اسے گھریلو سیاست کا شکار بنا کر آلودہ نہ کر دیا جائے اور صلاحیتوں کو زنگ نہ لگا دیا جائے۔
وہ خاندان جو ذات برادری سے باہر رشتے ناطے کرنے سے بعض وجوہ سے پرہیز کرتے ہیں، وہ ایک مخصوص دائرے میں رہنے پر مجبور ہوتے ہیں، ان کا زاویہ نگاہ محدود ہوتا ہے، یہ ایک مخصوص پس منظر رکھنے کی وجہ سے مسائل ومعاملات کا محدود ادراک رکھتے ہیں یہ اپنے محدود حلقہ اثر میں تبلیغ واشاعت اور دعوت کا کام تو بہترین اندازیں کر لیتے ہیں لیکن تمدنی مسائل ومعاملات چلانے کے لئے جس قابلیت، فہم وفراست اور صلاحیتوں کی ضرورت ہوتی ہے وہ ان میں مفقود ہوتی ہے۔
خاندانی منصوبہ بندی کرنے والوں اور اس کلچر کو فروغ دینے والوں کے ذمے یہ سوال بھی قرض ہے کہ ہم ایک تعلیمی ادارہ چلانے کے لئے بے شمار افراد بھرتی کرتے ہیں۔ تو پورا ملک چلانے کے لئے کم سے کم افراد کیسے اقتدار، عدالت، فوج، بیورو کریسی، دفاتر، تجارت، اسکول، کارخانے، فیکٹریوں اور جملہ ہائے شعبہ جات کا انتظام سنبھال سکتے ہیں۔ افرادی قوت تو جتنی زیادہ ہو گی معیشت ترقی کرے گی جبکہ کم افراد ملکی ڈھانچے کو چلا نہیں سکتے۔ خاندان جتنا چھوٹا ہو گا اس کا دائرہ اثر بھی اتنا ہی محدود ہو گا جبکہ بڑا خاندان کا دائرہ اثر کئی خاندانوں تک پھیلے گا۔ گیارہ خاندانوں سے آپ ﷺ کا رشتہ مصاہرت اسلام کے لئے بہت سود مند ثابت ہوا۔ کوئی قبیلہ مسلمان ہو گیا تو کسی کا انتقامی جذبہ سرد پڑ گیا۔ عرب جس کو بیٹی دے دیتے اس کے خلاف ان کی انتقامی کاروائیاں سرد پڑ جاتیں۔ سیدہ میمونہ رضہ کا اصل نام برہ سے بدل کر آپ ﷺ نے اسی لئے میمونہ کیا کہ یہ نکاح کئی ایک معاملات میں باعث برکت ٹھہرنا تھا۔ ایک تو اس سے بیوہ کو سہارا مل گیا یعنی تالیف قلب ہوئی۔ دوسرا اس نکاح کے بعد میمونہ رضی اللہ عنہا کے بھانجے خالد بن ولید نے اسلام قبول کر لیا نیز عمرو بن العاص اور کعبہ کے کلید بردار طلحہ نے بھی اسلام قبول کر لیا۔ یہی آپ ﷺ کی حکمت تھی۔ ایک اور فائدہ جو اس سے آپﷺ کو متوقع نظر آتا تھا وہ اہل نجد کا دل اسلام کے لئے نرم ہونا تھا۔ اس نکاح کے بعد اہل نجد جو 70 مبلغین کے قتل کے مجرم تھے۔ اسلام کے لئے نرم پڑ گئے۔
اچھائی کی ترویج کے لئے کثیر الاولاد جوڑے مبارک ثابت ہوتے ہیں اور قوی مومن کو یوں بھی پسند کیا گیا ہے۔ آپ جتنے بچوں کو مجاہد بنا کر مختلف شعبہ ہائے زندگی میں خدمات سر انجام دینے کے لئے تیار کریں گے اتنا ہی اجر بھی زیادہ پائیں گے، خیر اور دین حق کی کی گرفت بھی باطل کی شہ رگ پر اتنی ہی مضبوط ہو گی۔ حق بات کہنا آسان ہو گا یہاں تک کہ باطل کے بال وپر کی حفاظت کے واسطے اسلامی اور خصوصا نظریاتی ممالک میں بولنے والا کوئی نہ رہے گا۔ ان شاءاللہ