آج کا نوجوان اور بدلتے سماجی رویئے

 

سماج میں اقدار و روایات کے حوالے سے آنے والی تبدیلی اور بدلتے سماجی رویے اثر انداز ہوئے ہیں۔ انسان ایک سماجی وجود ہے سماج میں پیدا ہوا ہے اور سماج ہی میں پرورش پاتا ہے اس لیے سماج سے کٹ کر الگ تھلگ زندگی نہیں گذاری جاسکتی معاشرے سے محبت امید اور عمل ناپید ہوتا جا رہا ہےاور نو جوان نسل خصوصا اپنے خلق، مزاج اور سیرت کے حوالے سے بد ترین رویوں کا شکار ہیں۔ انسانی زندگی کے چار عوامل ہیں جوعمر کے ہر حصے میں بنیادی کردار ادا کرتے ہیں۔ یہ چار عوامل جسمانی، روحانی، سماجی و تخلیقی ہیں۔

جسمانی: حصے میں مکمل جسم اس کی خوبصورتی، ظاہری شکل و صورت اور جسمانی طاقت کے ساتھ ساتھ زندگی بسر کرنےکا ڈھنگ اور نظم و ضبط شامل ہے اپنے جسم کو مستعد و چاق و چوبند رکھنے کے لیے وقت پر متوازن و صحت مند غذا اور ورزش بہت ضروری ہے جو سستی و کاہلی کو ختم کرتی ہے۔ جسم انسانی کو اللہ نے نقل و حرکت اور کام کاج کے لیے بنایا ہے۔ متحرک و ورزشی جسم ہی صحت مند ذہن کو تشکیل دیتا ہے لیکن آج کل کے نوجوانوں میں سستی و کاہلی نے ڈیرے ڈال کر ان کی امید و بڑھتی امنگ ختم کر کے جمود کا شکار بنا دیا ہے۔ نئی نسل کا پیدل چلنا، ورزش کرنا کم ہو گیا ہے اور ان کا انحصار اب بجائے پیدل چلنے کے بجائے گاڑی کے سفر ہی کو ترجیح ہے سونے اور کھانے کے اوقات میں خطرناک تبدیلی نے بھی نوجوانوں کو مضمحل و بیزار کر دیا ہے۔ سوشل میڈیا کا بڑھتا استعمال منفی سوچیں اور بروقت کام نہ کرنے کی عادت نے بھی ان کو ناکام کر دیا ہے۔

روحانی: انسان روح اور جسم کا مجموعہ ہے۔ روح اور جسم لازم و ملزوم ہیں۔ روح کے بغیر جسم بیکار ہے۔ کیوں کہ انسان محض ایک جسم کا نام نہیں بل کہ جسم سے پہلے وہ ایک روح ہے جسم تو درحقیقت روح کی خدمت پر مامور ہے جس طرح جسمانی وجود کے لیے ضروری ہے کہ سانس لینے کا عمل مسلسل جاری رہے بالکل اسی طرح روحانی وجود کے لیے بھی ضروری ہے کہ ہمہ وقت دل اور زبان اللہ کی یاد سے معمور رہیں۔ جب کہ مذہب کو پرائیوٹ لائف قرارر دے کر اللہ کی یاد سے دور کر کے روح کو غافل کر دیا گیا ہے۔ بغیر روح کے ظاہری اعمال پر اکتفا کر لیا گیا ہے۔ ریا کاری نام و نمود اور فخر کے رویوں نے نفس انسانی میں ڈیرے ڈال کر بے جان و مردہ قلب افراد کی کثرت پیدا کر دی ہے۔ آج جسم کو ترجیح دینے سے انسان خالص مادی وجود بن کر رہ گیا ہے اور یہی اس کے اخلاقی و روحانی زوال کا اصل سبب ہے۔ شعوری طور پر جس نے اپنے رب کو روحانی طور پر تسلیم کرلیا اور اپنے مقصد زندگی سے روشناس ہو گیا وہ کامیاب ہو گیا۔ بقول واصف علی واصف؛ بے مقصد انسان مرتا ہی رہتا ہے، مقصد والا انسان مرنے کے بعد بھی زندہ رہتا ہے۔؛

تخلیقی: ہر فرد میں رب تعالی نے صلاحیتیں و قابلیتیں رکھی ہیں کسی کو لکھنے پر عبور ہے اور کوئی اچھا بول سکتا ہے کوئی اچھی نعت پڑھ سکتا ہے اور کسی کے گلے میں اللہ نے سر بکھیرنے کی صلاحیت ڈالی ہوتی ہے اپنی صلاحیتوں کو جانچ کر تخلیق کرنا اور سماج میں مقام بنانا دراصل اپنے اپنی صلاحیتوں سے متعارف ہونا ہے۔ انسانی زندگی میں پہلی شخصیت ماں کی ہوتی ہے جو بچے کی شخصیت بناتی سنوارتی ہے اور خاص رویوں سے اس کی ذات کی تکمیل کرتی ہے ماں کی محبت، ماں کی ڈانٹ، ماں کی شفقت، ماں کی توجہ بچے کی شخصیت کی تعمیر کرتی ہے جو آگے چل کر اچھے یا برے رویوں کی صورت میں معاشرے کا حصہ بن جاتے ہیں۔

سماجی: ہر فرد ہر ذی روح ایک معاشرتی وجود ہے جہاں وہ پیدائش کے بعد جوانی و بڑھاپے کی منازل طے کرتا ہے۔ ایک مثالی معاشرہ وہ ہی ہوسکتا ہےجس میں افراد کے درمیان محبت، احترام انسانیت، رشتوں کا لحاظ، بڑوں کا ادب، چھوٹوں پر شفقت، ایک دوسرے کی جان مال کا تحفظ عزت سب شامل ہیں۔ اس کے ساتھ ہر فرد کو معاشی میدان میں سعی و جہد کا حق بھی حاصل ہو اور وہ طبقاتی تقسیم سے بالا تر ہو کر معاشی سعی و جہد میں ایک دوسرے کے مدد گار و معاون بن کر ایک دوسرے کا ساتھ دے۔

انسان کو جو چیز چھوٹا بناتی ہے وہ اس کی خواہشات نفس ہیں اور یہی انسان کو چالباز، مفاد پرست، لالچی و مکار بنا دیتی ہیں۔ آج کا نوجوان اپنی خواہشات کے جال میں الجھ کر دل کی تنگی کا شکار ہو گیا ہے اس کی نگاہ میں صرف میں، میری ذات، میری خواہشیں، میری طلب، میری محرومیاں غرض اس میں کے چکر نے ان نوجوانوں کے اندر سے ادب احترام انسانیت، محبت و اخوت کے جذبات ختم کر دیے ہیں۔ پہلے نصیحت سن کر شرمندگی ہو جاتی تھی اور اب نصیحت ہی سننا پسند نہیں کرتے اور اگر نصیحت سن بھی لی جائے تب غصے سے مشتعل ہو کر بد زبانی پر اتر آتے ہیں نہ استادوں کا احترام رہا نہ ہی والدین کی عزت رہی نہ چھوٹوں کا لحاظ رہا نہ عہد کی پاسداری رہی خیانت، جھوٹ اور اخلاقی گراوٹ میں مبتلا یہ نوجوان مغربیت میں ڈوبے ہوئے ہیں، ہر بات کا جواب نہیں، بد نظمی و افراتفری میں مبتلا اپنی غیر صحت بخش عادات اور برے ساتھیوں کی صحبت میں اپنا مستقبل داؤ پر لگائے ہو ئے ہیں۔ ان عوامل کی بڑی وجہ سماج میں بڑھتی فحاشی بے حیائی مخرب اخلاق فلمیں، بے ہودہ لٹریچر و پوسٹرز بھی ہیں باطل نظام نے ان جوانوں کی زندگی کی قدریں بدل کر ان کی صلاحیتوں کو مفقود کر دیا ہے مادہ پرستانہ ذہنوں نے بھی اپنے جگر گوشوں کے ایمان و اخلاق کو گروی رکھ دیا ہے سماج میں ان مستبل کے معماروں کے رویوں کو صحیح خطوط میں لانے کے لیے والدین و اساتذہ کے ساتھ ادارہ جات و سماج میں موجود ہر فرد کو بہترین حکمت عملی اختیار کرنی ہو گی کہ یہ نوجوان ہی معاشرے کی امید اور روشن و تابناک مستقبل ہیں۔