اچھ ۔۔۔ ا !!! تو آپ جہیز نہیں لے رہیں۔ کریدنے کے انداز میں پوچھا جاتا ہے تو کبھی تفتیش کے انداز میں۔ کبھی ستائشی نظروں سے دیکھے جاتے ہیں آپ اس فیصلے پر تو کبھی نوکیلی نگاہوں کو اندر تک سرایت کرتا محسوس کرتے ہیں۔ یہ فرضی باتیں ہر گز نہیں، ایسا بہت بار ہمارے ارد گرد ہوتا ہے۔
یہ ایسا ناگوار موضوع ہے کہ فطرت سلیم رکھنے والے افراد کے لئے اس کو زیر بحث لانا بھی طبیعت پر گراں گزرتا ہے۔ تاہم ذہن و قلب اور قول و فعل اس زہر سے جتنے آلودہ و پراگندہ ہو چکے ہیں ان کا تدارک بھی ضروری ہے۔ لڑکے والے اسے اپنا جائز حق سمجھتے ہیں مزید ستم یہ کہ لڑکی کے باپ کی خون پسینے کی اس کمائی پر اپنی ملکیت جتاتے ہیں۔
اگر آپ گہرائی میں جا کر سوچیں تو اس گندی رسم سے گھن کھانے لگیں، روایات اور رسم قبیح نہ ہوں اور ذوق سلیم پر بھاری نہ ہوں نیز اسلامی مزاج کے خلاف نہ ہوں تو انہیں اپنانے میں کوئی حرج نہیں، کوئی قباحت نہیں۔ مگر، آپ خود سوچیں جہیز کیا ہے! دراصل ایک باپ کی خون پسینے کی کمائی، جسے وہ اولاد کی محبت میں اس کے مستقبل کے تحفظ کے لئے، سسرال میں اس کی عزت بنانے کے لئے، دھتکار پھٹکار سے بچانے کے لئے اور نہ جانے کتنے اندیشوں اور وسوسوں سے سہم کر دیتا ہے لیکن برصغیر کی تاریخ گواہ ہے کہ جہیز نے کبھی تقدیر نہیں بدلی۔
آپ خود سوچیں، آپ کی سوچ کتنی سطحی ہے، آپ غور ہی نہیں کرتے کہ جہیز پرایا مال ہے اگر باپ نے بناء کسی مجبوری کے صرف اولاد کی محبت اور سہولت کی خاطر تحفتاً بھی دیا ہے تو اپنی بیٹی کو دیا ہے جس میں تصرف کا حق اس بیٹی کی مرضی کے بغیر نہیں رکھتے۔ اگر مجبوری کی بناء پر دیا گیا ہے، ناگوار فریضہ سمجھ کر دیا گیا ہے اور عموماً ایسا ہی ہوتا ہے کیونکہ ہر باپ جاگیردار نہیں ہوتا۔ تو بھی ہمیں پراگندہ ذہن کی تطہیر و صفائی کی اشد ضرورت ہے۔ کیا لڑکی کی ذمہ داری نکاح کے بعد لڑکے نے نہیں اٹھانی ہوتی! کیا وہ اس کا کفیل نہیں ہوتا! اگر ہوتا ہے اور بجا طور پر ہوتا ہے تو اس کی غیرت کس طرح بھیک کے مال سے اپنے گھر کو بھرنا پسند کرتی ہے! یوں تو گویا اس نے تو اپنی نا اہلی کا ثبوت دے دیا کہ وہ بیوی کا خرچ اٹھانے کے قابل نہیں۔ اگر شادی صرف جنسی تسکین حاصل کرنے کے لئے کی جاتی ہے تو بھی لڑکی کے والدین کو کیا سزا ہے کہ وہ اپنے جگر کا ٹکڑا بھی حوالے کریں اور لڑکے کا گھر بھرنے کے بھی پابند ہوں! کیا یہ کمینگی کی انتہا نہیں کہ آپ لڑکی سے اس کو ملنے والے جہیز کی بنیاد پر پرکھیں! اور پھر اس لڑکی کے باپ کے دیئے گئے مال میں لڑکی کی رضامندی کے بغیر تصرف کریں! سر دست اگر لڑکا اتنا خرچ نہیں کر سکتا تو لڑکی کے باپ کو سزا دینے کی کیا دلیل ہے؟
دراصل، یہ لڑکے کی ذمہ داری ہے کہ نکاح سے قبل گھر کے لئے اشیائے ضرویہ کا انتظام کرے۔ اور اس معاملے میں لڑکے کو بھی دباؤ کا شکار کرنے کی ضرورت نہیں ہے، ہر لڑکا اپنی حیثیت کے مطابق اپنے گھر کے لئے اشیاء بنا سکتا ہے۔ دوسری طرف والدین اپنی مرضی سے بنا کسی دباؤ کے یا رسم کی ادائیگی کے صرف اولاد کی محبت میں، اس کی سہولت کی خاطر اس کو تحائف دیتے ہیں تو اس میں کوئی حرج نہیں بلکہ یہ تو رحم کی علامت ہے، پھر ان تحائف سے لڑکے کی عزت میں بھی فرق نہ آئے گا اور لڑکی کو ملنے والے ان تحائف پر کوئی بھوکی نظر سے بھی نہیں دیکھے گا۔ اللہ ہمیں اس قبیح رسم کا خاتمہ کرنے کی توفیق دے۔ آمین