پاکستان اور یہاں کے عوام کی مالی حالت آج تک اس لیے نہیں بدلی کیونکہ ہم نے کبھی بھی نہ معاشی منصوبہ بندی کی اور نہ ہی اپنے مستقبل کے بارے میں کچھ سوچا کیونکہ ہم حال میں جینے والی قوم ہیں جو نہ ماضی سے سیکھتے ہیں اور نہ آگے کا سوچتے ہیں۔
ملکی سیاستدان بھی اپنی سیاست چمکاتے رہتے ہیں تاکہ وہ ہمیشہ اقتدار میں رہ سکیں۔ عوام کو سیاستدان بھیڑ بکریاں سمجھ کر مختلف بیانات داغتے ہیں اور عوام اس بھیڑ کی طرح ہوتی ہے جو ان کی بغیر سوچے سمجھے پیروی کرتے ہیں۔ اگر ہم یہ چاہیں کہ عوام کی حالت بہتر ہو تو سب سے پہلے ہمیں چھوٹی عمر سے ہی بچوں کو معیشت کے بارے میں سبق دینا ہوگا۔ آج ہمارے بچوں کو کسی بھی چیز کی قیمت کا اندازہ نہیں ہوتا۔ ہمارے بچوں نے صرف مانگنا سیکھا ہے۔ کمانا نہیں۔ چاہے وہ ماں کی محبت ہو، باپ کی شفقت ہو یا بزرگوں کا پیار ہو، ہم مانگتے تو ہیں مگر اس محبت، پیار، شفقت کیلئے اپنے فرائض بھول جاتے ہیں جبکہ بچے صرف یہ چاہتے ہیں کہ ماں باپ سمیت ہر شخص ان کی سنے اور ان کو دے۔
آج سے کئی سال پہلے جن ممالک نے ترقی کی، اس کی وجہ یہ تھی کہ انہوں نے اپنے بچوں کو مختلف معاملات کی اہمیت کا احساس دلایا چاہے وہ ماں باپ کا پیار ہو یا ملک سے محبت۔ انہوں نے بچوں کو سکھایا کہ اگر ماں باپ کی خدمت کرو گے، اپنے اساتذہ سے تعلیم حاصل کرو گے تو ان کو آپ نے وہ عزت و احترام دینا بھی ہے جس کی وجہ سے استاد اپنا علم، اپنا ہنر، اپنے شاگرد کو دے۔ ہمارے وطن اور دنیا بھر کا سب سے بڑا مسئلہ اس وقت پیسے بچانا بن چکا ہے۔ اخراجات اتنے بڑھ چکے ہیں کہ پیسے بچانا ناممکن سی بات نظر آتی ہے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ چاہے وہ گھر ہو، دفتر ہو یا ملک ہو، ہم اکنامک پلان نہیں بناتے۔
ہم اگر اپنے گھر کے اخراجات کو روزانہ کی بنیاد پر تحریر کرنا شروع کریں تو مہینے کے آخر میں ہمیں یہ پتہ چل جائے گا کہ کن کن چیزوں کی وجہ سے ہم بچت نہیں کرپاتے، مگر ہم اپنے گھر کو بھی اپنے ملک کی طرح روزانہ کی بنیاد پر چلاتے ہیں۔ جب جو اخراجات سامنے آتے ہیں، کر لیے جاتے ہیں۔ پیسے بچانے کا سب سے بڑا طریقہ اپنے اخراجات کی پہچان کرنا ہے۔ جب تک آپ کو کسی بھی مسئلے کا پتہ نہ ہو، آپ اس کا حل تلاش نہیں کرسکتے۔ عموماً سب سے بڑی مصیبت انسان پر اس کا قرض ہوتا ہے جس کو ہم لے تو لیتے ہیں مگر وہ قرض کا بوجھ ہر ماہ کی بنیاد پر بڑھتا چلا جاتا ہے۔ قرض لینے سے قبل ہمیں قرض ادا کرنے کی منصوبہ بندی بھی کرنی چاہئے، جس کیلئے باضابطہ حساب کتاب (کیلکولیشن) ضروری ہے۔ یہ سب کچھ اندازوں کی بنیاد پر نہیں کیاجاسکتا۔
بچت کی بات کی جائے تو ہم چھوٹی سی رقم سے بڑی رقم کی طرف جاسکتے ہیں۔ اس کی مثال یہ ہے کہ اگر ہم روزانہ کی بنیاد پر 100 روپے بچائیں تو ایک ماہ میں 3000 روپے، 12 ماہ میں 36000 اور 5 سال میں 1 لاکھ 80 ہزار روپے بچائے جاسکتے ہیں۔ اس سے یہ بات واضح ہوجاتی ہے کہ جو 100 روپے ہم نے 1 روز کے حساب سے بچائے تھے، اگر ہم نے 5سال کی پلاننگ کے تحت وہ بچت جاری رکھی تو 1 لاکھ 80 ہزار روپے کی بڑی بچت کی جاسکتی ہے یعنی جو شخص بس میں آرہا ہوتا ہے، وہ 5سال میں 1 لاکھ 80 ہزار کی موٹر سائیکل کا مالک بن سکتا ہے۔ مگر ہم 100 روپے کو اہمیت نہیں دیتے اور اس 100روپے سے پان اور سگریٹ خرید کر استعمال کرتے ہیں اور ملک و قوم کو کوسنا جاری رکھتے ہیں۔ 5سال بعد بھی ہمارے حالات نہیں بدلتے۔ بسوں میں سفر کرتے ہیں اور کہتے ہیں کہ ہم موٹر سائیکل نہیں خرید سکتے۔
دوسری جانب ملکی معیشت کا حال بھی اس سے کچھ مختلف نہیں۔ روزانہ کی بنیاد پر ہمارے سیاستدان آسائشوں کی طرف تو جاتے ہیں اور بادشاہوں سے زیادہ شان و شوکت کا مظاہرہ کرتے ہیں جبکہ وہ ایک غریب قوم کی قیادت کا دعویٰ کرتے ہیں۔ آج اگر ہمارے سیاستدان اپنی طرزِ زندگی کو بدل دیں اور شاہی حکومتی اخراجات کو بند کردیں تو آئندہ 5سال میں ہم اربوں روپے کے قرضے ادا کرسکتے ہیں۔ سرکاری ادارے ہوں یا سیاستدان، کیا انہیں دیکھ کر آپ کو محسوس ہوتا ہے کہ ان کا تعلق کسی غریب ملک سے ہے؟ پاکستان میں ہم نے ایسے بہت سے سیاستدان دیکھے ہیں جنہوں نے ماضی میں ملک کیلئے کام کیے، اپنی ذاتی دولت ملک کیلئے دی اور عوام کا سوچتے ہوئے اِس دنیا سے رخصت ہوگئے۔ مثال کے طور پر شہیدِ ملت لیاقت علی خان اور 21ویں صدی میں دنیا سے رخصت ہونے والے نعمت اللہ خان کی مثال ہمارے سامنے ہے۔
بہت سے لوگ کہتے ہیں کہ آج کل کے زمانے میں ایسے لوگ نہیں ملتے، مگر اسی زمانے میں حافظ نعیم الرحمان جیسے لوگ بھی موجود ہیں جو ایک معمولی سے گھر میں چھوٹی سی گاڑی اور ایک نوکری کی مدد سے اپنی ذاتی زندگی گزار رہے ہیں۔ ساتھ ہی ساتھ نعیم الرحمان سیاست میں بھی اپنا حصہ ڈال رہے ہیں مگر عوام اب ایک ہی سوال اپنے آپ سے کرتے ہیں کہ کیا اقتدار میں آنے کے بعد کیا یہ شخص لیاقت علی خان اور نعمت اللہ خان جیسے رہ سکیں گے یا بدل جائیں گے؟ یہی ڈر مدِ نظر رکھتے ہوئے لوگ چاہتے ہوئے بھی ایسے لوگوں کی حمایت کی طرف نہیں آتے کیونکہ ماضی میں بھی کچھ سیاستدان نعمت اللہ خان جیسے سیاستدان رہے مگر عوام نے انہیں تبدیل ہوتے ہوئے دیکھا ہے۔ اس تبدیلی کی وجہ سے اب لوگ تبدیلی والا نعرہ اور تبدیلی والے لیڈر پر اعتماد کرتے ہوئے گھبراتے ہیں۔
دعاگو ہوں کہ میرے ملک کا ہر سیاستدان اپنے آپ کو لیاقت علی خان کے نقشِ قدم پر چلتے ہوئے سیاست کرے اور اپنے گھر کے پیسوں سے پاکستان بنانے کا فیصلہ کرے۔ لیاقت علی خان نے دہلی میں اپنا ذاتی مکان پاکستان کو دے دیا تھا۔ کیا سیلاب زدہ پاکستان کو دیکھتے ہوئے کسی سیاسی لیڈر نے سیلاب زدگان کو اپنے گھر کا کوئی حصہ بھی رہنے کیلئے دیا؟ ہمارے محلات میں رہنے والے لیڈر بہت سی جگہیں دے سکتے تھے۔ انہوں نے کروڑوں اربوں روپے لوگوں سے جمع کیے لیکن کبھی یہ نہیں بتایا کہ اپنی جیب سے انہوں نے عوام کو کتنا دیا۔ مجھے بہت خوشی ہوگی اگر اپنی ذاتی کمائی سے میرے ملک کے سیاستدان اپنے وطن پر پیسہ لگائیں، غریبوں پر خرچ کریں تاکہ غریب عوام ان سے خوش ہوں۔ کاش کہ میرا کوئی لیڈر ایک رات سیلاب زدگان کے ساتھ اسی حالت میں زندگی گزارنے کا فیصلہ کرتا جس حالت میں سیلاب متاثرین رہنے پر مجبور ہیں تو شاید پھر کبھی بھی غریب سیلاب زدگان دوبارہ ایسی زندگی نہ گزارتے۔