فیس بک پر کئی پوسٹیں تا دیر اپنا اثر چھوڑتی پیں۔ وہ ایسی ہی ایک پوسٹ تھی جس میں دو بچیوں کا تذکرہ تھا۔ ایک بچی کی گڑیا اور تمام سامان اور دوسری کا گھر اور گڈا تھا۔ بحر حال بچیوں کی کھیل میں ٹھن گئی۔ نتیجتا گڈے کی مالک بچی نے گڑیا اور سہیلی کے تمام کھلونے اس دلیل سے ضبط کر لیے کہ چونکہ شادی ہو چکی ہے اس لئے سامان کی واپسی نہیں ہو سکتی۔ تھا تو یہ کھیل مگر کھیل کہہ کر اور بزدل اور تیز بچی کا تبصرہ کرکے گزر جانا انصاف کا خون ہے۔ اس نفسیات کی حوصلہ افزائی ہے جو عہد کو کھیل سمجھتی ہے۔
یوں تو عہد تین قسم کے ہیں ایک اللہ اور بندے کے درمیان دوسرا انسان کا خود اپنے ساتھ جسے عہد الست سے تعبیر کیا جاتا ہے۔ اور تیسرا وہ جو انسان کو دوسرے انسان سے جوڑتا ہے۔ ایسے انسان جو خوف خدا رکھتے ہیں انہی کے بارے میں کہا گیا،
اور وہ اللہ کے ساتھ اپنے عہد کو پورا کرتے ہیں، اسے مضبوط باندھنے کے بعد توڑتے نہیں۔ اور ان کی یہ روش ہوتی ہے کہ اللہ نے جن رشتوں کو جوڑنے کا حکم دیا ہے انھیں جوڑتے ہیں۔(القرآن)
لیکن ایک بڑی تعداد ایسے لوگوں کی ہے جو عہد کی اہمیت سمجھتے ہی نہیں۔
وہ جو اللہ سے کئے ہوئے عہد کو پختہ کرنے کے بعد بھی توڑ دیتے ہیں اور جن رشتوں کو اللہ نے جوڑنے کا حکم دیا ہے انہیں کاٹ ڈالتے ہیں اور زمین میں فساد مچاتے ہیں ایسے ہی لوگ بڑا نقصان اٹھانے والے ہیں۔( القرآن)
بے شک رشتوں کو کاٹنا زمین میں فساد برپا کرتا ہے۔ نکاح بھی ایک ایسا عہد ہے جس کی پاسداری میں دیانت کا لحاظ شاذ ہی نظر آتاہے۔ نکاح دو افراد کو ہی عہد کی لڑی میں نہیں پروتا بلکہ دو خاندانوں کی عزت وناموس کا عہد نامہ ہوتا ہے اور زوال پذیر معاشرے میں سب سے زیادہ یہی عہد نامہ متاثر ہوتا ہے۔ رشتہ قرابت کے تعلقات کے بگاڑ کی بات ہو تو سر فہرست یہی رشتہ اور یہی تعلق ہے۔ شیطان کا دلپسند مشغلہ بھی اسی رشتے میں بگاڑ پیدا کرنا ہے اس کے چیلے یہی کارنامہ سنا کر شیطان اعظم سے داد پاتے ہیں۔انہی کو شیطان خوش ہو کر سند پسندیدگی جاری کرتا ہے۔
بنی اسرائیل میں جب اخلاقی بگاڑ عروج پر پہنچ گیا تو جادو کے ذریعے اس تعلق میں دراڑیں پیدا کی جانے لگیں اور یہ عمل آج تک جاری ہے۔ ہم بھول جاتے ہیں کہ یہ شیطانی عمل ہے اور زوجین کے مابین فاصلے پیدا کرنے کا موجب بنتے ہیں۔ ہماری یہ دوریاں پیدا کرنے والی ذہنی کیفیت کبھی تو احساس محرومی کا نتیجہ ہوتی ہے اور کبھی محض شرارت ،کبھی اندیشے اور واہمے ہمیں ایسا کرنے پر اکساتے ہیں اور کبھی حاکمیت جتانے کا جذبہ ہمیں گنہگار کرنے کا باعث بنتا ہے۔ سر دست، جب نکاح کا عہد ہو چکا ہے تو اس کی پاسداری بھی آپ پر واجب ہے۔یقینا مودت و رحمت بھی تبھی پیدا ہو گی جب حقوق کی ادائیگی میں خوف خدا سے کام لیا جاتا رہے گا۔عہد میں بگاڑ کا نتیجہ ہی ہے کہ مسائل کا جھنجھٹ ختم ہونے میں ہی نہیں آتا۔
نکاح کا عہد یقیناً تقاضا کرتا ہے کہ زوجین ایک دوسرے کی دلچسپیوں، مزاج اور عادات کا لحاظ رکھیں۔ تخلیے میں بھی باہمی احترام کو پامال نہ کریں اور محفل میں بھی ایک دوسرے کے جذبات کی قدر کریں نہ تو خود ہی ایک دوسرے پر حرف گیری کریں اور نہ کسی اور کو اس بات کا موقع دیں کہ کوئی شریک حیات کے ساتھ غلط رویہ اپنائے۔ اپنے شریک سے محبت کیجئے وہ محبت جو شریک حیات کی تکلیف کو اپنی تکلیف اور اس کے سکون کو اپنا سکون سمجھتی ہے جو نہ خود اپنے محب کو ذہنی اذیت میں دیکھ سکتی ہے نہ کسی اور کو اس بات میں لچک دے سکتی ہے کہ کوئی اس کے ہمسفر کو اذیت دے۔ یہ عہد اللہ سے ڈر کر تعلق نبھانے کا شدید متقاضی ہے۔ یقینا ہم سے اس عہد کے بارے میں سوال ہو گا جس پر نسل انسانی کے اخلاق کی بنیاد کھڑی ہے۔ اللہ ہمیں عہد نکاح کے تقاضوں کو بہترین طریقے سے نبھانے کی توفیق دے اور عہد کی پاسداری کرنے کی توفیق دے۔آمین