عموماً دیکھا گیا ہے کہ گھر سے باہر آدمی اپنی وضع قطع، مصنوعی اخلاق اور ملمع کاری کی بدولت اپنی پہچان ایک بہترین انسان کے طور پر کروا لیتا ہے مگر گھر میں داخل ہوتے ہی بناوٹی تہیں کھلنے لگتی ہیں اور اصل چہرہ نمایاں ہونے لگتا ہے۔ آدمی کی اچھائی کا فیصلہ اس کی گھریلو زندگی کی جھلک ہی کر سکتی ہے اور یہ جھلک ہی سند کی حیثیت رکھتی ہے کیونکہ باہر تو منافقت کے چہرے کی بدولت (شرافت) کی سند لی جا سکتی ہے مگر گھر میں منافقت کی قلعی کو تادیر قائم نہیں رکھا جا سکتا۔ آپ ﷺ نے فرمایا
تم میں بہتر شخص وہ ہے جو اپنے گھر والوں کے لئے سب سے اچھا ہو اور میں تم سب میں اپنے گھر والوں کے لئے زیادہ اچھا ہوں۔ (ابن حبان)
یاد رہے گھر والوں سے مراد بیوی اور بچے ہوتے ہیں۔ اگر انسان باہر خوش اخلاقی کا لبادہ اوڑھ کر اپنے آپ کو مہذب انسان کی حیثیت سے پیش کرتا ہے مگر بیوی اس کے بد اخلاق رویے ہی کی شاہد ہوتی ہے اور بچے اس سے سہم کر اپنی سرگرمیاں موقوف کر دیتے ہیں تو معذرت کے ساتھ، ایسا انسان وضع دار کہلانے کا ہر گز مستحق نہیں تآنکہ اس کی بیوی اور بچے اس کے اخلاق وکردار کے معترف نہ ہو جائیں۔
حضرت احوص رضی اللہ عنہ سے روایت ہے کہ انہوں نے نبی کریم ﷺ کو ارشاد فرماتے ہوئے سنا غور سے سنو عورتوں کے ساتھ اچھا سلوک کیا کرو اس لئے کہ وہ تمہارے پاس قیدی ہیں۔ تم ان سے اپنی عصمت اور تمہارے مال کی حفاظت وغیرہ کے علاوہ اور کچھ اختیار نہیں رکھتے۔ ہاں اگر وہ کسی کھلی بے حیائی کا ارتکاب کریں تو پھر ان کو ان کے بستروں میں تنہا چھوڑ دو یعنی ان کے ساتھ سونا چھوڑدو لیکن گھر ہی میں رہو اور ہلکی مار مارو۔ پھر اگر وہ تمہاری فرمانبرداری اختیار کرلیں تو ان پر (زیادتی کرنے کے لئے) بہانہ مت ڈھونڈو۔ غور سے سنو! تمہارا حق تمہاری بیویوں پر ہے (اسی طرح) تمہاری بیویوں کا تم پر حق ہے۔ تمہارا حق ان پر یہ ہے کہ وہ تمہارے بستروں پر کسی ایسے شخص کو نہ آنے دیں جس کا آنا تم کو ناگوار گزرے اور نہ وہ تمہارے گھروں میں تمہاری اجازت کے بغیر کسی کو آنے دیں۔ غور سے سنو! ان عورتوں کا تم پر حق یہ ہے کہ تم ان کے ساتھ ان کے لباس اور ان کی خوراک میں اچھا سلوک کرو (یعنی اپنی حیثیت کے مطابق ان کے لئے ان چیزوں کا انتظام کیا کرو)۔ (ترمذی)
خود آپ صلی خدیجہ رض کے انتہائی قدردان تھے۔ آپ ﷺ امی خدیجہ رضی اللہ عنہا کی وفات کے بعد بھی ان کی بزرگ سہیلیوں سے حسن سلوک فرماتے اور ان کو تحائف بھجواتے۔ (ترمذی)
مثالی شوہر کاروباری مسائل اور گونا گوں ذمہ داریاں کے با وصف گھر داخل ہوتے وقت بھی نبوی مزاج پر عمل پیرا ہوتا ہے بالکل اسی طرح جیسے کہ المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا بیان فرماتی ہیں کہ آپ ﷺ جب بھی گھر کے اندر تشریف لاتے نہایت ہی خندۂِ پیشانی کیساتھ مسکراتے ہوئے داخل ہوتے۔ ( متفق علیہ )
مثالی شوہر گھر میں اپنی موجودگی سے اہل خانہ کو ہراساں نہیں کیے رکھتا اور نہ ہی احکامات جاری کر کے ایمرجنسی یا افراتفری کی صورتحال پیدا کر کے تسکین محسوس کرتا ہے بلکہ نبوی کلیے کے مطابق یہ وقت اہل خانہ سے تعلق مضبوط کرنے، تربیت کرنےمیں صرف کرتا ہے نیز جاہلیت کی انا اور زعم کو کچل کر گھریلو کاموں میں اہل خانہ کا تعاون کرتا ہے اور اپنے ذاتی کاموں کا بار بھی ان پر لادنے سے حتی المقدور پرہیز کرتا ہے۔ آسانی بانٹنا پسند کرتا ہے اور بیوی کو اپنی مقدور بھر کوشش سے خوش رکھتا ہے۔ اسے اس سنت کا بخوبی فہم ہوتا ہے جو درج ذیل حدیث میں وارد ہے۔
ایک صحابیؓ نے ام المومنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا سے دریافت فرمایا کہ آپ ﷺ جب گھر پر تشریف فرما ہوتے تو ان کی کیا مصروفیت ہوتی تھیں؟ تو ام المؤمنین سیدہ عائشہ صدیقہ رضی اللہ عنھا نے بیان فرمایا کہ آپﷺ اپنی ازواج مطہرات رضی اللہ تعالی عنھن کے کاموں میں شریک ہوتے تھے ( بخاری شریف)۔
مثالی شوہر بیوی کو حبس بے جا میں رکھنے اور طرح طرح کی پابندیوں سے اس کی ذہنی اور عملی صلاحیتوں کو مفقود کرنے کی بجائے ان کی ہلکی پھلکی سرگرمیوں میں دلچسپی ظاہر کرتا ہے۔ اور تو اور خود بھی ایسی سرگرمیوں کے مواقع بہم پہنچاتا ہے جس سے اہلیہ کو ذہنی تفریح کے مواقع مل سکیں اور وہ گھٹن کا شکار نہ ہوں۔ اسے بخوبی علم ہوتا ہے آپ ﷺ کے نمونے کا جو ام المومنین حضرت عائشہ سے دوڑ کا مقابلہ کرتے نظر آتے ہیں (ابو داؤد کی روایت) تو کبھی انہیں حبشیوں کے کرتب رومانوی انداز میں دکھاتے نظر آتے ہیں۔ (بمطابق مسلم) بیوی سے اتنی محبت کہ جس جگہ سے وہ برتن کو منہ لگاتی ہیں اسی جگہ سے آپ ﷺ قصدا لگاتے ہیں۔ (بمطابق مسلم)
غرض مثالی شوہر کی عائلی زندگی خشک اور بے جان نہیں ہوتی، وہ خوامخواہ کی پارسائی کی مد میں اہل خانہ کو زندگی کی رنگینیوں سے محروم نہیں کرتا بلکہ خود ان کی دلچسپیوں کے لئے مواقع بہم پہنچاتا ہے۔ اللہ ہمیں دین کی فہم رکھتے ہوئے اپنے فرائض نبھانے کی توفیق دے تا کہ ہم دین سے بیزار ہو نے کی بجائے اس سے محبت کرنے لگیں۔ آمین