مبارک ہو زمانے کو وہ ختم المرسلین آیا
سراپا کرم بن کر رحت اللعالمین آیا
اگر سیرت بیان کرنے کی بات ہو تو زبان تھک جائے گی اور قلم ختم ہو جائیں گے مگر محمدﷺ کی سیرت کا ایک رخ بھی نہ میں بیان کر سکوں گی نہ میرا قلم لکھ سکے گا۔ آپ ﷺ باپ بھی تھے اور شوہر بھی، سپہ سالار بھی تھے اور حکمران بھی، جج بھی تھے اور شارع بھی۔
اس محسن انسانیت نے کیا کچھ نہ دیا انسانوں کو
دستور دیا، منشور دیا کئی راہیں دیں کئی موڑ دیئے
بچوں کے دوست تھے تو بوڑھوں اور ضعیفوں کے لئے خدمت گار، نوجوانوں کے لئے بے داغ شباب کا نمونہ تھے تو عورتوں کے لئے انتہائی لطیف اور نازک جذبات رکھتے تھے۔ ایک صحابی نے جب اونٹوں کو تیز چلایا تو بے ساختہ پکار اٹھے ‘اے انجشہ آہستہ چل کہ یہ تو آبگینے ہیں۔
مکہ سے بے دخل کر دینے والا یہی نوجوان مدینہ میں جا کر اخوت کی مثالیں رقم کرتا ہے اور پوری انسانیت کے لئے بلا تعصب میثاق مدینہ کا منشور پیش کرتا ہے، صلح حدیبیہ سے ہوتے ہوئے فتح مکہ کے وقت مثالی کردار پیش کرتا ہے۔
ہوں لاکھوں سلام اس آقا پر بت لاکھوں جس نے توڑ دئیے
دنیا کو دیا پیغام سکوں، طوفانوں کے رخ موڑ دئیے
معزز اساتذہ کو نمونہ چاہیئے تو بطور معلم محمد ﷺ کو دیکھ لیں جن کا ہر ہر عمل تعلیم دیتا۔ جدید ٹیچنگ میتھڈ بھی اس معلم کے سامنے شرمندہ نظر آتا ہے۔ والد کو دیکھنا ہے تو فاطمہ کے والد، ابراہیم کے والد، حسن وحسین کے نانا کو دیکھے، شوہر کو نمونہ چاہیئے تو عائشہ کے محبوب اور قدر کرنے والے کو دیکھے، خدیجہ کے ہمراز کو دیکھے۔ فاتح، فاتح مکہ کو دیکھے اور حکمران عرب کے فرمانروا کو دیکھے۔ دوست صدیق اکبر کے دوست کو دیکھے اور دشمنی کے لئے نمونہ چاہیئے تو بیٹی کے قاتل ہبار بن الاسود، عکرمہ اور ابو سفیان کے دن کو دیکھئے۔
ام معبد نے سیرت کا کیا خوب نقشہ کھنچتی ہیں:
پاکیزہ رو، کشادہ چہرہ، پسندیدہ خو، دور سے دیکھنے میں زیبندہ و دلفریب۔ یہ بھی کہا کہ قریب سے نہایت شیریں و کمال حسین، شیریں کلام، واضح الفاظ، کلام کمی و بیشی الفاظ سے مبّرا، تمام گفتگو موتیوں کی لڑی جیسی پروئی ہوئی، میانہ قد کہ کوتاہی نظر سے حقیر نظر نہیں آتے، نہ طویل کہ آنکھ اس سے نفرت کرتی۔
بے شک شاعر نے سچ ہی کہا کہ
محفلِ کون و مکاں نہ ہوتی اگر وہ شاہِ اُمم نہ ہوتا
بے شک آپﷺ کے بعد کوئی نبی نہیں آئے گا۔ جو ایسا دعویٰ کرے گا وہ بلا تحقیق ‘کذاب’ قرار پائے گا۔ مسیلمہ ہو کہ سجاع یا اسود، سب منکرین نبوت کے سر تنبیہہ کے بعد قلم کر دیے گئے۔ قرآن کے الفاظ ‘ما کان محمد ابآ احد من رجالکم ولکن رسول اللہ و خاتم النبیین ‘ اور حدیث کے الفاظ ‘انا خاتم النبیین اور لا نبی بعدی’ تا قیامت حجت پیں۔ لہٰذا مرزائی یا قادیانی بھی مرتد ہیں اور ‘کذاب’ نبی ‘غلام احمد’ کا ٹولہ ہیں۔
وہ جس کے دل میں نہ ہو آبروئے ختم الرسلﷺ
تو رکھنا فرض ہےاس بے حیا سے کینہ مجھے
اسی لئے اقبال نے نصیحت کی
قوت عشق سے ہر پست کو بالا کر دے
دہر میں اسم محمد ؐسے اُجالا کر دے
شان رسالت کو اقبال ہی کے الفاظ میں بیان کرتے ہوئے کہ
وہ دانائے سبل، ختم ارسل مولائے کل جس نے
غبار راہ کو بخشا فروغ وادی سینا
نگاہ عشق ومستی میں وہی اول وہی آخر
وہی قرآں وہی فرقان وہی یٰسیں وہی طہٰ