دہلی پولیس نے ایشیاکپ کے فائنل میں پاکستانی کرکٹ ٹیم کی ناقص فیلڈنگ کو تنقید کا حصہ بنانے کی بجائے اسےاپنے لوگوں کی آگاہی کے لیے استعمال کرنے کا فیصلہ کیا، جی ہاں دہلی پولیس نے ایشیا کپ کے فائنل میں شاداب خان اور آصف علی کے ٹکرانے اور کیچ چھوڑنے کے سین کو ٹریفک قوانین کی آگاہی کے لیے استعمال کرنا شروع کردیا ہے۔
کچھ اس طرح کہ اس سین کے کپشن میں “اے بھائی ذرا دیکھ کر چلو” پھر ٹریفک قوانین سے آگاہی کا ہیش ٹیگ بمعہ ایشیا کپ ہیش ٹیگ استعمال کیا گیا ہے۔ اس طریقہ سے موٹرسٹ کو تفریخ کے ساتھ ٹریفک قوانین کے بارے میں یاددہانی بھی ہوجائے گی۔
اگر ہماری ٹریفک پولیس بھی اس طریقہ پر عمل کرے تو ہمیں اس کے دو فائدے ہونگے، ایک تو لوگوں کو بغیر کسی ذہنی اذیت کے ٹریفک قوانین کے بارے میں یاددہانی ہوگی دوسرا ہمارے کھلاڑیوں کو بھی یاددہانی ہوگی کہ آئندہ ایسی غلطی نہیں کرنی۔
کھلاڑیوں سے یاد آیا آج کل ہمارے کپتان نے اپنے ایک انٹرویو کے ذریعے اپنے کھلاڑیوں کو مشکل میں ڈال دیا ہے، جس میں انہوں نے بالواسطہ طور پرآرمی چیف کو توسیع دینے اور ان کی زیر نگرانی الیکشن کروانے کی خواہش کا اظہار کیا ہے، کپتان کی اس خواہش اور مطالبے سے وہ کھلاڑی جو تن من دھن سے گزشتہ کئی ماہ سے کپتان کے خطابات سے یہ نتیجہ اخذ کرچکے تھے کہ تمام مسائل کے پیچھے آرمی چیف ہیں، اور پھر اس کے بعد وہ نتائج کی پرواہ کیے بغیر ، بغیر کسی تحقیق کے ، سوچ ، عقل ، دل ، دماغ ، پر حقائق کو پرکھے بغیر ان لوگوں پر تنقید کررہے تھے جو ہمارے کل کے لیے اپنا آج قربان کرنے کے لیے ہمہ وقت تیار بیٹھے رہتے ہیں ، جو ضرورت پڑنے پر نہ صرف خود بلکہ ان کے بچے تک اس دھر تی پر قربان ہوجاتے ہیں ، جن کی زندگیاں نسل درنسل اس دھرتی کی حفاظت کرتے گزرجاتی ہیں ، ان لوگوں پر کھلاڑی بلاسوچے سمجھے تنقید کے نشتر برسا کر گویا دشمن کا کام آسان کررہے تھے ۔
لیکن خدا کی قدرت دیکھیے جس لیڈر کی خاطر یہ لوگ ایسی عظیم ہستیوں کو برا کہہ رہے تھے آج اسی لیڈر نےان پر یہ کہہ کر اعتماد کا اظہار کردیا ہے کہ متوقع الیکشن انہی کی زیر نگرانی ہونے چاہییں ، کپتان کی اس تجویز پر عمل ہو نہ ہو، لیکن اس تجویز نے جناب باجوہ صاحب اور ان کے مصاحبین کی جانب اڑنے والے غلیظ چھینٹوں کو واپس ان ہی کی جانب اچھال دیا ہے جنہوں نے اپنے مذموم مقاصد کے لیے ایسی جسارت کی تھی ۔
اور ایسا پہلی بار نہیں ہوا، ماضی میں کم و بیش تمام سیاسی جماعتیں ایسی جسارت کرچکی ہیں کبھی اداروں کے خلاف تو کبھی ایک دوسرے کے خلاف ، مثال کے طور پر ایک وقت میں پاکستان پیپلز پارٹی نے اپنے چاہنے والوں کو بتایاکہ “ق لیگ ” ہی دراصل قاتل لیگ ہے ، مگر کچھ عرصے کے بعد اسی قاتل لیگ سے اتحاد کرلیا، اسی جماعت کے چوہدری پرویز الہی کو ڈپٹی وزیر اعظم کا عہدہ دے دیا، یعنی قاتل لیگ کو ڈپٹی وزیر اعظم بنادیا گیا ، پیپلز پارٹی اور “ن” لیگ کے ایک دوسرے پر الزامات تو اب کھلی کتاب کی مانند ہیں ، جناب عمران خان جو “ن” لیگ کے بارے میں اپنے حامیوں کو بتاتے ہیں کہ یہ لوگ ڈاکو، چور ، لٹیرے ہیں اسی جماعت سے گزشتہ سینٹ الیکشن کے موقع پر پنجاب میں سیٹ ایڈجسٹمنٹ کرچکے ہیں۔
زرداری جوبقول ان کے بہت بڑا ڈاکوہے کے ساتھ مل کر صادق سنجرانی کو منتخب کرواچکے ہیں، اور موجودہ آرمی چیف کے بارے میں “ن لیگ ” نے جو کچھ کہااور پھر بقول عمران خان انہیں کی مدد حاصل کی ۔ مندرجہ بالا واقعات میں عوام الناس کے لیے سبق ہے کہ موجودہ سیاست کو سنجیدہ نہ لیا جائے، سیاستدانوں کی خاطر اداروں کے خلاف زبان کا غلط استعمال نہ کریں، اپنی دوستیاں، رشتہ داریاں، اپنے کاروبار، نوکریاں قربان مت کریں وگرنہ آپ کے حصہ میں صرف اور صرف شرمندگی، افسوس یا پھر جیل آئے گی اور لیڈر اپنے ماضی کے بیانات سے ملک کے وسیع تر مفاد کا بہانہ بناکر پہلو تہی کرلے گا اور آپ کف افسوس ملتے رہ جائیں جیسے آجکل کپتان کے کھلاڑیوں کے ساتھ ہورہا ہے، اور دنیا ہمارے کھلاڑیوں کی حرکات سے اپنے عوام کی تربیت کا کام لیتی رہی گے۔ آئیے آج سے ہم عہد کریں کہ کسی سیاسی جماعت کا آلہ کار نہیں بنیں گے تاکہ دنیااور آخرت میں پچھتاوے کا سامنا نہ کرنا پڑے، کیونکہ یادر رکھیے کسی بھی لیڈر کے بارےمیں جھوٹ، بہتان تراشی، غیبت کے بارے میں اس دنیا میں جواب دہی ہو نہ ہو، آخرت میں ضرورجواب دہی ہوگی، اس لیے ذرا دیکھ کر چلیے۔