انگریزی مہینے کی 25 تاریخ کیلنڈر میں سرخ روشنائی سے لکھی جاتی ہے۔ اسے جلی حروف میں کیوں نہ لکھا جائے اور یہ تاریخ اپنی قسمت پر کیوں نہ ناز کرے جب اس تاریخ کو صلاح الدین ایوبی نے بیت المقدس فتح کر کے یادگار بنا دیا۔ بیت المقدس مسلمانوں کا پہلا قبلہ ٹھہرا تا کہ وضاحت ہو جائے کہ امامت کا منصب بنی اسرائیل سے ضبط کر کے امت محمدیہ کو دیا جا رہا ہے کیونکہ بنی اسرائیل شہادت حق کے فریضے کی انجام دہی میں ناکام ٹھہرے تھے اور امت محمدیہ نے اپنی کارکردگی کی بناء پر اپنے آپ کو دنیا کی رہنمائی کا اہل ثابت کیا تھا لہٰذا دنیائے عالم کی زمام کار مسلمانوں کو تھما دی گئی۔ یہی وہ پس منظر ہے جس نے یہودیوں کو مسلمانوں کا رقیب بنا دیا۔جبرائیل اور محمد صلی اللہ علیہ وسلم سے عداوت اور پرخاش ان کی رگ رگ میں رچی ہوئی ہے اور ان کا بغض ان کے ہر عمل سے جھلکتا ہے۔ لیکن اللہ کا اصول تھا کہ امامت کے منصب پر وہی فائز رہے گا جو اس کا مستحق اپنے آپ کو ثابت کرے گا۔
حضرت عمر رضی اللہ عنہ کے بعد صلاح الدین نے اپنے آپ کو اس منصب کا مستحق ثابت کیا اور بیت المقدس کو یہودیوں کے چنگل سے چھڑایا۔ مگر مغضوب ٹھہرائی جانے والی قوم جو اپنی سرکشی اور بغاوت کے سبب کہیں چپہ بھر زمین بھی پانے سے محروم کر دی گئی،نے اللہ سے جنگ شروع کر دی اور فتح بیت المقدس 1187ء کے بعد مختلف حربوں سے بیت المقدس پر گرفت مضبوط کرنے کی کوشش کی مگر خلافت عثمانیہ نے بیت المقدس کے حوالے سے کھڑا موقف رکھا نتیجتاً،خلافت کو پارہ پارہ کر دینے کی عالم سازشیں ہوئیں اور پھر بیت المقدس سے مسلمانوں کو ہاتھ دھونا پڑے۔ امامت اور شہادت کے فریضے میں کوتاہی نے ہمیں بیت المقدّس، قبلہ اول سے محروم کر دیا۔ اور آج تک سیادت اور قیادت کی علامت قبلہ اول پر مسلمان دوبارہ قابض نہ ہو سکے مگر فلسطینی تن تنہا بیت القدس کا مقدمہ لڑ رہے ہیں۔ ایٹمی اور جدت سے لیس اسلحے کا مقابلہ ایمانی جذبے، اور پتھروں سے کیا جا رہا ہے۔ یہودی امریکی سہارے پر فلسطین میں اسرائیل بنائے بیٹھے ہیں جبکہ سلامتی کونسل اور اسلامی ممالک قبلہ اول کے بارے میں صرف مذمتی بیان جاری کرنے کی حد تک سنجیدہ ہیں۔ کیا خوب ترجمانی کی ہے کسی شاعر نے۔
ہم نے ٹائر جلائے تماشے کیے
اپنی جھوٹی انا کے تماشے کیے
عیسائی حضرت عیسی کی وجہ سے فلسطین سے وابستگی ظاہر کرتے ہیں تو یہودی ہیکل سلیمانی کی تاریخی حیثیت ثابت کرتے ہیں مگر مسلمان تمام انبیاء کو مانتے ہیں اور محمدص کی بعثت کے بعد جب اسے قبلہ اول مقرر کر دیا گیا تو باوجود یہودیوں کے بغض کے اسے مسلمانوں کی ولایت میں سمجھا گیا۔ تاہم، اب جب کہ محافظ ٹکریوں میں بٹ گئے اور وراثت پر نظریں رکھنے والے اس پر قابض اور ‘ضالین’ نے ‘مغضوبوں’ کا یروثیلم پر قبضہ تسلیم کرلیا تو اس سے فلسطین کی تاریخی حیثیت مسخ نہیں ہو جاتی۔ لہذا فلسطینی تن تنہا قبلہ اول کی جنگ لڑ رہے ہیں۔ مسجد میں نمازیوں کی شہادت اور مسجد کا تقدس پامال کرنا اسرائیلیوں کا شیوہ ہے۔ ایسے میں بیت المقدس اصل رکھوالوں کی بے اعتنائی پر رنجیدہ ہوتے ہوئے ملکیت کا جھوٹا دعویٰ کرنے والوں کی دسترس میں نا قابل بیان گھٹن کا شکار ہے۔ اللہ اپنے گھر کے لئے ابابیلیں تب اتارا کرتا ہے جب زمین میں اس کے گھر کی رکھوالی کرنے والا، توحید کا علمبردار ناپید ہو چکا ہو۔ اس لئے اسلامی ممالک کی عظیم چین کو بیت المقدس کو پنجہ یہود سے چھڑانے کے لئے ایوبی تلوار اور عمر رض کے لشکر سی فوج اور عمرو بن العاص سا سپہ سالار تیار کر لینا چاہیئے ورنہ اللہ کی عدالت میں کثرت تعداد میں ہونے کے باوجود اس کے گھر کی پامالی کے ضمن میں جواب تیار کر لینا چاہیئے۔
فلسطینی ان شاءاللہ عمر سا خلیفہ اور ایوبی، زنگی سی تلوار کے تیار ہونے تک مسجد کا دفاع کرتے رہیں گے مگر جب تک مسلمان اجتماعی طور پر شہادت حق اور امامت کے منصب کے تقاضوں کو ادا نہیں کرتے اللہ بیت المقدس کو ابابیلوں کے ذریعے کبھی بھی ان کی جھولی میں ڈالے گا۔ یہ اللہ کے اصول کے خلاف ہے۔ اللہ نے یہودیوں کو مغضوب ہی رکھنا ہے اور انہیں کہیں جائے پناہ نہیں ملنے والی مگر مسلمانوں کو بھی وراثت میں یہ قطعہ انبیاء اور قبلہ اول نہیں ملنے والا۔ لہٰذا بیت المقدس سے بیت الحرام تک کا سفر کرنے والے ولیوں کو نیل سے تابخاک کاشغر تک ایک ہونے کی ضرورت ہے۔ اللہ فلسطینیوں، حماس و الفتح کی جدوجہد میں برکت ڈالے اور اسلامی ممالک کو ایوبی کی قیادت میں لشکر جرار تیار کرنے اور بیت المقدس کی فتح کے لئے بھیجنے کی توفیق دے۔آمین