ملک میں سیلاب ہے، لوگ بے گھر ہیں، بجلی کے بلوں نے قیامت مچائی ہوئی ہے، روٹی کی قیمت بڑھتی ہی جارہی ہے۔ غریب آدمی فیصلہ نہیں کر پارہا ہے کہ وہ کیا کرے، مکان کا کرایہ ادا کرے، بچوں کی اسکول فیس دے، گھر میں روٹی دال کا بندوبست کرے، یا بجلی کے بل بھرے، لیکن ان تمام مسائل سے ہمارا میڈیا بہت دور ہے۔ سیاست دان بھی دور ہیں، سرمایہ کاروں اور صنعت کاروں کا بھی کوئی مسئلہ نہیں ہے۔
حکومت کی شاہ خرچیاں ہیں کہ رکتی ہی نہیں، ابھی امریکہ کے دورے میں جن مہنگے ترین ہوٹلوں میں جس شاہانہ انداز کے اخراجات کیے جارہے ہیں، ان کو دیکھ کر کوئی نہیں کہہ سکتا کہ یہ ایک غریب مقروض، مصیبت کے مارے ملک کا وزیر اعظم ہے۔ ہمارے دوست ممتاز صحافی معاوذ صدیقی حکمرانوں نی چٹکیاں لینے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیتے۔ امریکہ میں مریم اورنگ زیب سے پوچھ رہے تھے کہ ہوٹل کے اخراجات کتنے ہوئے، تو مریم اورنگ زیب کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ وہ صرف یہی کہہ سکی کہ پاکستان پہنچ کر بتائیں گی۔ موجودہ کابینہ میں حال ہی میں آٹھ مشیروں کا اضافہ کیا گیا ہے۔ اس وقت ملک میں کابینہ کے اراکین کی تعداد 72 ہے۔ تاریخ کی سب سے بڑی کابینہ شہباز شریف نے سیلاب زدہ ملک کے قومی خزانے سے ریکارڈ دورے کیئے ہیں۔ ان کا قدم ملک میں ٹکتا ہی نہیں، ان کی کابینہ میں 34 وفاقی وزرا، 7 وزرائے مملکت، 4 مشیران اور 27 معاونین خصوصی شامل ہیں۔ قومی خزانے میں کچھ بچا ہی نہیں ، ترقیاتی کاموں یا ملک میں کوئی اور تعمیراتی سرے سے نہیں ہو پارہا۔ کیونکہ وفاق کے پاس 18 ویں ترمیم کے بعد کچھ زیادہ نہیں بچتا۔ اس پر قرضوں پر سود ادائیگی، دفاع پر بھاری اخراجات ہیں۔ پچھلے 2 ماہ میں اخراجات جاریہ 11 کھرب روپے ہوئے۔ وزارت خزانہ کا کہنا ہے کہ جولائی تا اگست کی مدت71 فیصد سے زائد اخراجات صرف2مدات قرضوں پر سود کی ادائیگی اور دفاع پر ہوئے،ملک کی فلاح و بہبود اور ترقی پر خرچ کرنے کیلئے بہت کم رہ گیا۔ لیکن جو بہت کم رہ گیا ہے وہ بھی اڑایا جارہا ہے۔ ہر بات کی مشاورت کے لیے لندن میں نواز شریف سے بات کی جاتی ہے، اعلانیہ اور خفیہ دورے ہورہے ہیں۔
اس سب سے ہٹ کر ملک میں لبرل اور دائیں بازو والوں کے درمیان ایک سرد جنگ بھی جاری ہے، یہ جنگ ٹرانس جنڈر بل پر ہے۔ درمیان میں ممتاز صحافی اور عمران خان کے بڑے سپورٹر ایاز امیر کی بہو کا قتل بھی آگیا۔ قتل بیٹے نے کیا ہے، وہ گرفتار بھی ہوگیا۔ لیکن اب ایاز امیر کو بھی اس مقدمہ میں گرفتار کرلیا گیا ہے۔ اس سے پہلے اسلام آباد میں نور مقدم کے قتل میں بھی لبرل اور دائیں بازو والوں کی کشمکش کا اظہار ہوچکا ہے۔ پاکستان میں ایک طبقہ مادر پدر آزادی، شراب نوشی کی آزادی، اور آزادانہ جنسی اختلاط کی وکالت کرتا ہے۔ ہمارے معاشرے میں روایات اور اخلاقیات میں تیزی سے زوال آرہا ہے۔ ہمارے قوانین بھی صرف بارسوخ سرمایہ دار اور طاقت والوں کی پست پناہی کررہے ہیں، مقدمے قتل کے ہوں ، یا لوٹ مار کے عدالتیں انصاف مہیا نہیں کررہی۔ کمزور اور زبردست کے لیے قانون کے علیحدہ علیحدہ ضابطے ہیں، ہم اپنی دینی تعلیمات، اخلاقیات ، خاندانی طرز معاشرت اور سماجی ورثہ سے بھی محروم ہورہے ہیں۔ سندھ میں ناظم جوکھیو کے قتل کا مقدمہ ایسی ہی ایک مثال ہے۔ کمزوروں کو دولت اثر رسوخ، طاقت، سے دبا لیا جاتا ہے۔ عدالتیں کھڑی منہ دیکھ رہی ہوتی ہیں ، اور قاتل آزاد ہوجاتے ہیں، پاکستان میں جب تک انصاف کی حکمرانی نہیں ہوگی۔ قانون سب کے لیے برابر، اور حکمرانوں کو کڑا احتساب نہیں ہوگا۔ ملک میں دودھ اور شہد کی نہریں کبھی نہ بہہ سکیں گی۔