کہتے ہیں کہ کسی ملک میں ایک بادشاہ کی طرف یہ حکم جاری کیا گیا کہ صبح جب لوگ اپنے گھروں سے نکلیں گے تو ان کے سر پر جوتے مارے جائیں گے۔ رعایا ایسی تابعدار تھی کہ لائن لگا کر کھڑی ہوجاتی اور باری آنے پر جوتے کھاتی اور اپنے کاموں پر نکل جاتی لیکن اس کے ساتھ مسئلہ یہ ہوگیا کہ انہیں مختلف کاموں میں تاخیر ہونے لگی۔ جس کے بعد انہوں نے بادشاہ سلامت سے درخواست کی کہ جناب ! آپ سے گزارش ہے کہ جوتے مارنے والوں کی تعداد میں اضافہ کیا جائے تاکہ ہم جلدی جلدی جوتے کھاکر اپنا قیمتی وقت بچاسکیں۔ اس وقت پاکستانی قوم کی حالت بھی بالکل ایسی ہی ہے۔ انہیں جوتے کھانے سے مسئلہ نہیں ہے بلکہ ان کی مشکل یہ ہے کہ جوتے جلد از جلد ماردیئے جائیں۔
اگرآپ کو میری بات کا یقین نہیں ہے تو خود مشاہدہ کرلیں۔ یہاں جیسے ہی پٹرول کی قیمتوں میں آضافہ ہوتا ہے لوگ بجائے احتجاج کرنے کے پٹرول پمپس پر لائن لگا کر کھڑے ہوجاتے ہیں کہ جلدی سے پٹرول بھروالیا جائے کہیں پٹرول پمپس بند ہی نہ ہوجائیں۔ حکمران انہیں بجلی کی لوڈشیڈنگ کےکتنے ہی جھٹکے دے دیں یہ اف نہیں کرتے بلکہ اپنی استطاعت کے مطابق جنریٹرز، یو پی ایس اور سولر سسٹم کا انتظام کرنے میں مصروف ہوجاتے ہیں۔ علاقے میں ڈکیتی کی وارداتیں بڑھ جائیں تو خود ہی گارڈز کا انتظام کرلیا جاتا ہے اب بھلا پولیس کو کون تکلیف دے۔
یہ بات میری سمجھ سے بالاتر ہے کہ ہم اس قوم کو مظلوم کیوں کہتے ہیں؟ درحقیقت ہم مظلوم نہیں بے حس قوم ہیں۔ ہم ایک ایسے پرندے کی مانند ہیں جس کو پنجرے سے تو نکال دیا گیا ہے لیکن پنجرا اس کے دل سے نہیں نکل رہا ہے۔ ہم نے بحیثیت مجموعی ہر خرابی کو اپنی تقدیر سمجھ لیا ہے اور یہ سوچنے کی کوشش ہی نہیں کررہے ہیں کہ یہ سب قدرت کی طرف سے نہیں بلکہ ہماری غلامانہ ذہنیت کی وجہ سے ہورہا ہے۔ ہم گزشتہ 74 سال سے طبقہ اشرافیہ کے غلام بنے ہوئے ہیں اور اس غلامی کو اپنا مقدر سمجھتے ہیں۔ ہم تویہ شعر بھی سمجھنے سے قاصر ہیں یا سمجھنے کے لیے تیار نہیں کہ !
خدا نے آج تک اس قوم کی حالت نہیں بدلی
نہ ہو جس کو خیال آپ اپنی حالت کے بدلنے کا
ہمیں سوچنا ہوگا کہ ہم کب تک اپنا بوجھ خود اٹھاتے رہیں گے۔ ریاست کب ہماری ذمہ داری اٹھائے گی ؟ ہم کسی بادشاہ کی رعایا نہیں بلکہ ایک جمہوری ملک کے باشندےہیں جس کا ایک آئین بھی ہے اور اس آئین میں ایک شہری کے تمام بنیادی حقوق درج ہیں۔ ہمیں کب احساس ہوگا کہ ایک عام شہری اور ملک کا وزیر اعظم مساوی حقوق رکھتے ہیں۔ ہم کیوں حکمرانوں کے لاٶ لشکر سے ڈرجاتے ہیں۔ ہمیں اس حقیقت کا ادراک کب ہوگا کہ ان حکمرانوں کی یہ شان و شوکت ہمارے ہی دم ہے۔ یہ ریاست ہمارے لیے ماں کے جیسی کب بنے گی ؟ اور کب ایک عام شہری حکمران وقت کے سامبے کھڑا ہو کر اپنی بیچارگی نہیں بتائے گا بلکہ اسے بتائے گا کہ میں ایک عام شہری بھی اس مملکت خداداد کا اتنا ہی مالک ہوں جتنا کہ تم ہو۔
وقت تیزی کے ساتھ ہمارے ہاتھوں سے نکل رہا ہے۔ مجھے ڈر ہے کہ یہ بے حسی کہیں بے غیرتی میں تبدیل نہ ہوجائے اور ہمارے اندر یہ احساس بھی مٹ جائے کہ ہمارے کچھ حقوق بھی ہیں۔ ستم ظریفی تو یہ ہے کہ ہمارے یہ حکمران اپنی اس رعایا کو دو وقت کی روٹی دینے سے بھی قاصر ہیں اور جگہ جگہ لگے فلاحی اداروں کے دسترخوان اس بات کی گواہی دے رہے ہیں کہ ہمارے حکمران 74 سالوں میں اپنے لوگوں کی بھوک بھی نہیں مٹاسکتے ہیں۔ کیا آپ کو نہیں لگتا کہ ہم اب بھی نہیں بدلے تو پھر کبھی نہیں بدل سکیں گے۔ 74 سال کا کفارہ ادا کرنے کا وقت آگیا ہے۔ اب بھی وقت ہے کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو اس نسل در نسل غلامانہ سوچ سے نکالنے کے لیے کچھ سوچیں اور فیصلہ کریں کہ اب قطار میں کھڑے ہو کر جوتے کھانے نہیں بلکہ حقوق غصب کرنے والوں کو جوتے لگانے ہیں۔ اس بارے میں آپ بھی سوچیے اور میں بھی سوچتا ہوں۔