میرا دین ضابطہ حیات ہے کوئی پریشانی ہو کوئی مسئلہ ہو یا معاملات زندگی ہو دین اسلام کے احکامات و تعلیمات سے رہنمائی حاصل ہوجاتی ہے سبحان الله اور رہنمائی بھی ایسی کہ دنیا بھی سنور جائے اور آخرت بھی آج ہم بہت سے مسائل کی گرفت میں ہیں جس کی بڑی وجہ احکامات الہی سے دوری ہے ہماری معاشرتی زندگی میں دن بدن بگاڑ پیدا ہوتا جارہا ہے آپس میں نفرتیں حسد بدگمانیاں بد زبانی ان برائیوں نے بھائی کو بھائی سے دور کردیا ہے پھر یہ اثرات بچوں میں بھی پروان چڑھتےجارہے ہیں ایک دوسرے کی شکلیں دیکھنا بھی گوارا نہیں کیا جاتا جبکہ میرادین اسلام تو آپس میں محبت اتفاق ایثار حسن اخلاق درگزر کی تعلیمات نوازتا ھے آپ کی ہستی مبارک ان تمام خوبیوں سے منور و مزین تھی کہ دشمن بھی دوست بن جاتا۔
سبحان اللہ یہ حقیقت ہے کہ مذکورہ بالا خوبیوں کی وجہ سے بندہ دشمن کو بھی دوست بنانے کی صلاحیت رکھ سکتا ہے جیسا کہ بزر گ کہتے ہیں کہ یہ زبان انسان کو دوست بھی بنا سکتی اور دشمن بھی پیدا کرسکتی ہے اسی زبان میں متوازن طریقے سے مٹھاس پیدا کرکے بڑے سے بڑا مسئلہ بھی حل کیا جاسکتا ہے اور یہی زبان بعض اوقات بنے بنائے کھیل بھی بگاڑ دیتی ہے بلکہ الجھنیں پیدا کردیتی ہے ایک خاتون نے بتایا کہ میری ساس بری نہیں ہے لیکن انکی تلخ کلامی گھر کے ماحول کو خراب کر دیتی ہے اسلیے گھر میں سب کی یہ کوشش ہوتی ہے کہ ان سے کم سے کم بات کی جائے یا درگزر کا معاملہ کیا جائے اس میں بھی اجر ثواب ہے سبحان اللہ جیسا کہ ایک ولی اللہ کی بیوی بڑی بدزبان تھی لیکن وہ نیک بندہ درگزر سے کام لیتا لوگ بڑے حیران ہوتے اور اس کے حوصلے کی داد دیتے آخر ایک دن اس کےکچھ قریبی دوستوں نے اس بدزبانی کو برداشت کرنے کی وجہ پوچھی تو تحمل سے مسکرا کر کہا کہ اس بندی(بیوی) کی وجه سے میرا اللہ مجھے اجر وثواب سےنوازتا جارہا ہے۔
معذرت کے ساتھ کہ اب اسکا یہ مطلب نہیں کہ سامنے والا اپنی اصلاح ہی نہ کرے اور اس پاس کے لوگوں کو تکلیف پہنچاتا رہےاور لوگ اسے مجبوراً برداشت کرتے رہیں کیونکہ عموماً مذکورہ بالا ولی اللہ کی طرح ہر ایک اتنا تحمل اور برداشت والا نہیں ہوسکتا اسی معاشرتی استحکام اور ماحول کو خوش گوار رکھنے کے لیے اپنے لہجے میں تبدیلی لانا ضروری امر ہے۔
آج اس بد زبانی اور بے باکانہ انداز کوبہت سے لوگ اپنی خوبی سمجھتے ہیں کہ دیکھا کیسےمیں نے اسے چپ کروایا اس کی تو میں نے بولتی بند کروادی جو کہ غلط روش ہے آج ہمارے معاشرے میں سیاست دانوں سے لے کر عوام تک میں یہی طریقہ چل رہا ہے ہرایک اپنی زبان کی نوک سے سامنے والے کو نیچا دکھانے کوشش میں لگا ہوا ہے میڈیا پر بیٹھے ہوئے لوگ بھی اسی انداز میں سامنے والے پر نشتر چلاتے رہتے ہیں اور اینکر اس گفتگو سے لطف اندوز ہوتے ہیں پھر یہی سب ناظرین اور سامعین بھی سیکھ رہے ہیں۔ یعنی یہ زبان اور انداز گفتگو انسان کو معتبر بناتی ہے اور یہی زبان انسان کو دوسروں کی نظروں میں گرا بھی دیتی ہے لہذا اپنی زبان کو قابو میں رکھنا بے حد ضروری امر ھے تلخ رویہ چیخ کر بات کرنا گندے الفاظ کا استعمال الزام تراشی کرنا آداب کے خلاف ہے۔
میرا اللہ رب العزت بھی نرمی کرنے والا ہے اسے بھی نرمی اور خوش اخلاقی پسند ہے جیسا کہ حضرت جریرہ فرماتے ہیں کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ جو شخص نرمی سے محروم ہواوہ تمام بھلائیوں سے محروم ہو گیا (ابو داؤد)۔
اسی طرح ابو داؤد کی دوسری حدیث اس طرح ہے کہ آپ ﷺ نے فرمایا کہ قیامت کے دن اللہ کے نزدیک سب سے برا وہ شخص ہوگاجس کی سخت کلامی کی وجہ سے لوگ اس سے ملنا چھوڑ دیں دوسری روایت میں آپ ﷺ نے فرمایا کہ اے عائشہ سب سے برے وہ لوگ ہیں جن کی زبان درازی کی وجہ سے ان کا احترام کیا جائے (ابو داؤد)
ان احادیث مبارکہ سے واضع ہے کہ نرم خوہی خوش اخلاقی کی ہمارے معاشرے کے استحکام کےلیے کتنی اہمیت ہے جسے ہم میں سے کتنے فراموش کر چکے ہیں جبکہ بندے کی یہی مذکورہ بالا خوبیاں بندے کو معتبر معزز بنانے میں کارگر ثابت ہوتی ہیں بلکہ رب العالمین کا پسندیدہ بندہ بننے کا شرف بھی عطا کرتی ہیں۔ ماشاء اللہ