حقوق نسواں یعنی عورتوں کے حقوق سے مراد وہ بنیادی حقوق اور قانونی استحقاق ہیں جن کا مطالبہ خواتین کی طرف سے کیا جاتا ہے۔بہت سے ترقی یافتہ ملکوں میں خواتین کو سماجی ،قانونی، معاشی طور پر حقوق سے نوازا جاتا ہے لیکن بہت سے ممالک ابھی بھی خواتین کے حقوق کو پورا نہیں کر پا رہے۔بنیادی طور پر حقوق نسواں کی اصطلاح میں وہ تمام حقوق شامل ہے جن کی ادائیگی نہ ہونے کی وجہ سے مردوں اور عورتوں میں جنس کا فرق ہے۔ان میں خواتین کے لیے جسمانی تحفظ کی یقین دہانی، معاشی خود مختاری، جنسی استحصال سے تحفظ، حکومتی اور سماجی اداروں میں برابری کی بنیاد پر ملازمتیں، مردوں کے برابر تنخواہیں، پسند کی شادی کا حق، افزائش نسل کے حقوق، جائداد رکھنے کا حق اور تعلیم کا حق شامل ہیں۔
اسلام ایک مکمل دین ہے۔اسلام تمام بنی نوع انسانیت کے لیے فلاح کا پیغام لے کر آیا۔اسلام سے پہلے کی تاریخ میں عورت کو قابل رحم مخلوق سمجھا جاتا تھا ۔عرب اپنی بیٹیوں کو زندہ دفن کر دیتے تھے کس لیے اس لیے کہ وہ انہیں اچھوت سمجھتے تھے۔صرف عرب ہئ نہیں مغرب میں قدیم مسیحی بھی کچھ ایسا ہی طرزعمل عورت کے بارے میں رواں رکھے ہوئے تھے۔
سینٹ جیروم (St. Jerome) نے کہا:
“Woman is the gate of the devil, the path of wickedness, the sting of the serpent, in a word a perilous object.”
لیکن اسلام میں عورت کو سر کا تاج قرار دیا۔جب کہ اسلام کی حقوق نسواں کی تاریخ درخشاں روایات کی امین ہے۔ روزِ اول سے اسلام نے عورت کے مذہبی، سماجی، معاشرتی، قانونی، آئینی، سیاسی اور انتظامی کرادر کا نہ صرف اعتراف کیا بلکہ اس کے جملہ حقوق کی ضمانت بھی فراہم کی۔
لیکن کیا اسلام کے نام پر قائم ہونے والے ملک پاکستان میں عورتوں کو ان کے حقوق سے نوازا جا رہا ہے یا ہم فقط حقوق نسواں کا نعرہ لگانے والوں میں سے ہیں۔
عورت کا سب سے بنیادی حقوق عزت ہے ایک انسان ہونے کی حیثیت سے ہم سب عزت میں افضل ہے ہماری عزت کے لیے یہ بات ہی کافی ہے کہ ہم آدم کی نسل سے ہے اور سب انسانوں کی عزت برابر ہے ۔تاریخ گواہ ہے کہ عورت کا اصل مقام تب ہی تعین ہو سکتا ہے جب اس کے لیے مرد کی آنکھوں میں عزت ہو گی۔
قدیم عربوں کی سب سے بڑی خامی یہ تھی کہ وہ عورت کی عزت نہیں کرتے تھے۔اسے اپنے پاؤں کی جوتی کے برابر سمجھتا تھا لیکن اسلام نے عورت کو تحفظ دیا عزت دی ایک برابر انسان ہونے کا حق عطا کیا۔آج پاکستان میں بعض جگہوں پہ عورت کو عزت کی نگاہ سے نہیں دیکھا جاتا ۔چند پڑھے لکھے اور شعور رکھنے والے لوگوں کے سوا سب عورت کو صرف ایک جسم کے طور پر دیکھتے ہیں۔چاہے وہ کتنی ہی مجبوری کی حالت میں گھر سے نکلی ہو اسے فاحشہ ہی سمجھا جاتا ہے۔عوامی جہگوں پہ جہاں وہ اپنی بھوک سے نڈھال ہو کر روزی کمانے نکلتی ہے تو سب وہاں اسے اپنا مال سمجھتے ہیں ۔بہانے بہانے سے چھونے کی غلیظ کوشش کرتے ہیں۔
سو عورت کا اس وقت سب سے بڑا حق عزت ہے اسے عزت چاہیے جو صرف کتابوں کی حد تک نہ ہو بلکہ مردوں کی آنکھوں میں ہو۔مرد عورت کو صرف جسم نہیں دماغ کے طور پر دیکھیں
لوگو! عورتوں کے حقوق کے بارے میں اللہ سے ڈرو (بخاری شریف، خطبۂ جحتہ الوداع)
لوگو ! اللہ نے تم پر حرام کی ہے مائوں کی نافرمانی اور لڑکیوں کو زندہ دفن کرنا (بخاری شریف، کتاب النکاح)۔
حقوق نسواں میں جس حق کو شدت سے نظرانداز کیا جاتا ہے وہ ہے عورت کا وراثت میں حق
آج اسلام کے نظام وَراثت میں عورت کے لیے مقرّر کر دہ حصّے پر تنقید کرنے والوں کو شاید یہ یاد نہیں کہ 18ویں صدی تک مغربی دُنیا عورت کے حقِ ملکیت اور حقِ وَراثت سے ناآشنا تھی۔اسلام نے نہ صرف باپ، بھائی، شوہر اور بیٹے کو اس کی کفالت کا ذمّے دار ٹھہرایا، بلکہ اسے وراثت میں بھی حقدار ٹھہرایا۔ لیکن آج ایک عورت کو وراثت میں حصہ دینا مرد اپنی توہین سمجھنے لگے ہیں۔جو کہ سراسر اسلام کے اصولوں کی خلاف ورزی اور حقوق نسواں سے منافی ہے۔ اسلام نے عورت اور مرد کو برابر قراد دیا تو اسے تعلیم میں بھی برابری کا حق حاصل ہونا چاہیے ۔
اس سے کئی سو سال پہلےآپ ﷺ کے وصال کے بعد آپ کی تعلیمات سے منوّر حضرتِ عائشہ صدّیقہؓ، جلیل القدر صحابہ کرام ؓکو قرآن و حدیث کی تعلیمات دیا کرتی تھیں ۔
پاکستان میں یا کسی اسلامی معاشرے میں عورت کو وہ حقوق حاصل نہیں ،جو نبی مہربان ﷺ نے متعین کیے ،تو اس کے لیے قصور وار اسلام اور اس کی تعلیمات نہیں،یہ قصور بھی ہمارا ہے اور ان حقوق کے تحفّظ کی ذمّے داری بھی ہماری ہی ہے۔ حضرت محمّدﷺ قیامت تک کے لیےہدایت اور روشنی کا منبع ہیں۔ آپﷺ کی تعلیمات کسی خاص وقت، ماحول اور علاقے کے لیے مخصوص نہیں تھیں۔ اس لیے زندگی کے ہر میدان کی طرح خواتین کا مقام ومرتبہ، ان کے حقوق کی فراہمی، فرائض کی ادائیگی وہی رہے گی یہ سب ایک عورت کے بنیادی حقوق ہیں ۔
اگر ہم ایک باعزت قوم کے طور پر زندہ رہنا چاہتے ہیں تو ہمیں معاشرے کے بنیادی ستون یعنی عورت کو واضع عزت اور حقوق دینے ہو گے۔