پورے ملک میں خاص کر سندھ بلوچستان میں سیلاب تباہی مچاچکا ہے، کئی خوشحال گھرانے دو وقت کی روٹی کیلئے پریشان ہیں گھرکاروبار فصلیں غرض کہ سب کچھ لُٹ گیا خالی ہاتھ بے سروسامانی کی حالت میں سرچھپانے کے لئے کسی کوئی ٹینٹ ملا تو کسی کو نہیں، کھلے سمان تلے گرمی میں مختلف بیماریوں کا شکار ہوکر اپنی مستقبل سے مایوس زندگی کے دن پورے کر رہے ہیں۔ سیلاب سے قبل ان علاقوں میں آباد کئی لوگ بہترین نہیں تو بہتر زندگی ضرور گزار رہے تھے۔ ان لوگوں کی خوشیاں ان کے ارمان سب کچھ سیلاب اپنے ساتھ بہاکر لے گیا ہے۔ سونے پر سہاگا خوشحالی کے دنوں میں کئی افراد اپنی آمدنی کو دیکھ کر اپنی ضروریات کیلئے مختلف بینکوں سے قرضے لیتے رہے اور وہ لگ بروقت باقاعدگی سے معاہدے کے مطابق سود کے ساتھ ادائی بھی کرتے آرہے تھے۔ اور مذکورہ بینکیں ان سے خوب کماتے آرہے تھے۔ لیکن پھر اچانک سیلاب نے سب کچھ بگاڑدیا ہے اور یہ خوشحال گھرانوں سے وابستہ افراد کوڑی کوڑی کیلئے محتاج بن گئے ہیں۔
مصیبت کی اس گھڑی میں بعض کمرشل بینکوں نے ساتھ دینے کی بجائے ان کو اقساط اداکرنے کیلئے تنگ کرنا شروع کیا ہوا ہے۔ ایک طرف بارش نے تباہی مچادی ہے تو دوسری جانب انھوں نے ماہانہ قسطوں کی ادائی کیلئے ان متاثرین لوگوں کا جینا دوبھر کردیا ہے۔ جبکہ وہ اس وقت کھانے کیلئے پریشان ہیں قسط اور سود کی رقم کہا سے لائیں۔ یہاں تک گورنمنٹ کی طرف سے ان اضلاع کو آفت زدہ قرار دے دیا تمام واجبات ریونیوکی وصولی تک روک دی گئی ہے۔ لیکن کچھ کمرشل بینکوں کے بعض اہلکار وں کو ان سیلاب ذدگان کی مجبوریوں مشکلات سے کوئی غرض نہیں ہے کہ ہم لوگوں پر کون کونسی آفت اور مصیبتیں آئی ہیں ان کو تو مارک اپ سمیت قسط چاہئے۔ دیکھا جائے تو ان بینکوں نے ان لوگوں سے بہت کمایا ایک عرصے سے ان بچاروں کو سخت شرائط پر قرضے دے کر ان کی خون پسینے کی کمائی سے خوب منافع کماتے کھاتے رہے اب اس مشکل وقت میں وہ بچارے ان بینکوں سے اپنے قرضوں کی معافی نہیں صرف اور صرف مہلت ہی چاہتے ہیں۔
اگر ان بینکوں کو ان بے بس مجبور لوگوں کی طرف سے سال چھ ماہ تک قسط نہیں ملی تو کونسی قیامت آجائے گی یا یہ کہ یہ بینک دیوالیہ ہوجائیں گے؟۔ تاہم بینکوں کی طرف سے اس معمولی رعایت سے جو کہ صرف ادائیگیوں کوموخر کر دینے کی حدتک ہیں۔ ان سیلاب متاثرین کسی حد تک بھلا ہوجائے گا۔ ریلیف ملے گی ویسے ان آفت زدہ لوگوں کو اپنے پاؤں پر کھڑا ہونے کیلئے ایک لمبے عرصے کی ضرورت ہے کیونکہ اس مہنگائی میں وہ کس طرح کھائیں گ؎ے اپنے تباہ شدہ مکانات کس طرح تعمیر کریں گے کس طرح اپنے بچوں کو تعلیم دیں گے زندگی کی دیگر ضروریات کو کیسے پورا کریں گے یہ سوچ سوچ کر دماغ چکرا جاتا ہے پھر خیال آتا ہے اللہ تعالیٰ بہت بڑا ہے وہی اسباب پیدا کرنے والا ہے دل کو تسلی ہو جاتی ہے۔ مصیبت کی اس گھڑی نے سب کی پہچان کرائی ہے۔ اپنے پرائے خداترس سب کے چہروں سے نقاب اتر گیا ہے۔
ہم سب نے کئی بار اس طرح کے مناظر دیکھے ہیں۔ جب کوئی شخص جو کہ پہلے ہی جسمانی طور پر کمزور ہوتا ہے جب وہ بیمار پڑتا ہے تو پھر اس پر کئی بیماریاں حملہ آوار ہوجاتے ہیں۔ یہی معاملہ سیلاب متاثرین کو بھی درپیش ہے جو جتنامالی طور پر کمزور ہے سب سے زیادہ مشکلات کا سامناان کو ہی کرنا پڑتا ہے۔ بینکوں کے یہ آفسران جو اے سی والے بنگلوں سے نکل کر اے سی والی گاڑیوں پر ا ے سی واے دفاتر میں بیٹھے ہوئے ہیں۔ بھلا ان آفسروں کو کیا احساس ہوگا کہ لوگ کتنے مشکل حالات سے گزر رہے ہیں۔ اس قسم کے لوگ کیا جانے کسی کا درد ان کو تو بس ہر حال میں وصولی چاہئے پیسہ چاہئے۔ اس لئے تمام کمرشل بینکوں کے سی ای اوز سے گزارش ہے کہ سیلاب سے متاثرہ وہ تمام اضلاع جن کو گورنمنٹ کی جانب سے آفت ذدہ قرار دے دیا گیا ہے۔ وہاں سے قرضوں کی ریکوری کو سال چھ ماہ کیلئے موخر کرکے ایک نوٹیفکیشن جاری کریں تاکہ پہلے سے پریشان یہ متاثرین کو کچھ ریلیف ملے ان کی بے چینی کسی حدتک کم ہوجائے۔ ویسے یہ بات تو طے ہے کہ یہ سیلاب متاثرین جن کا سب کچھ لوٹ چکا ہے۔ مہنگائی کے اس طوفان میں ان کا سبھل جانا،ناممکن تو نہیں لیکن بہت مشکل ضرور ہے۔