حساسیت کسی کو ظالم بنا دیتی ہے تو کسی کو مظلوم اور کوئی اسی کی بدولت اعتدال پسند بن جاتا ہے۔ یہ ایسے ہی ہے کہ ایک ہی قرآن سے کوئی نصیحت پکڑتا ہے تو کوئی گمراہ ہوتا ہے کوئی درمیان میں کھڑا شک کی وادیوں میں ہی گھرا رہتا ہے یہاں تک کہ اسے موت آن لیتی ہے۔
حساس انسان قابل قدر ہوتا ہے اگر اپنی سوچ کے دھارے پر اسے قابو ہو اور وہ اسے غلط رخ پر نہ چھوڑ دے۔منفی سوچ اور اعمال حساسیت کی موت ہیں۔احساس وہی قابل قدر ہے جس میں وسعت ظرفی کا عنصر ہو اور خود غرضی پر مبنی نہ ہو ۔ورنہ تو حساسیت نہیں خود غرضی کا لفظ اس ذہنی کیفیت کا درست ترجمان ہو گا۔
اسکولوں سے دھتکارے گئے بچے عموماً مجرم بن جاتے ہیں یا سرمایہ دار بن کر اسی تعلیمی نظام کے سپورٹر۔ کچھ خوش نصیب عالم دین بن جاتے ہیں تو کچھ عظیم شخصیت کے طور پر ابھرتے ہیں کبھی سائنسدان تو کبھی فلاسفر، کبھی لیڈر تو کبھی قلم سے رشتہ استوار کر کے مردہ احساسات کی بیداری کے لئے سرگرم ہو جاتے ہیں۔
اگر حساسیت آپ کو اس مقام تک پہنچا دے کہ آپ وہی کرنے لگیں جس کی وجہ سے آپ زود رنج ہیں تو آپ غلط رخ پر گامزن ہیں، آپ کے احساسات تعمیری رخ اختیار کرنے کی بجائے دوسروں پر بوجھ ڈالنے کا باعث بن رہے ہیں اور اپنے لئے سہولت کی راہ ڈھونڈتے ڈھونڈتے دوسروں کو بوجھل کر رہے ہیں تو سر دست، آپ کی حساسیت ،زود رنجی سے نکل کر منفیت کے قالب میں ڈھل کر معاشرے میں انتشار پھیلانے کا موجب بن رہی ہے۔
احساس، ذمہ داری پیدا کرتا ہے اور حساسیت بھی وہی،مثبت تبدیلی لانے میں کارگر ہے جو منفی زاویہ سے افراد اور اشیاء کو پرکھنے سے بچ جائے اور اچھائی کی توقع رکھتے ہوئے کھلی آنکھوں، کانوں اور حاضر دماغ سے معاملات کرنے کی خوگر ہو۔ورنہ حساسیت جو آج آپ کی شخصیت کے حسن اور انفرادیت کی مؤجب ہے، کل یہی ظلم وزیادتی کا لبادہ اوڑھ کر آپ کی شخصیت کے لئے زہر قاتل بن کر اسے داغدار کر دے گی۔حساسیت کا یہ منفی پہلو کبھی برے رویے میں ظاہر ہو گا تو کبھی تنگ نظری کی صورت۔کبھی عمل میں دکھائی دے گا تو کبھی سچی گواہی کو چھپا کر۔کبھی۔کبھی ذہنی الجھن میں مبتلاء کرے گا اور کبھی ذہنی الجھن پھیلانے کا سبب بنے گا۔کبھی آپ کو نفسیاتی مریض بنا دے گا تو کبھی آپ دوسروں کو ذہنی مریض بنا دیں گے۔کبھی آپ خود بکھر جائیں گے تو کبھی دوسروں کی شخصیت کو بکھیر دیں گے، توڑ پھوڑ دیں گے اور معاشرے میں افراتفری اور نفسانفسی کی کیفیت پیدا کر دیں گے۔
احساس نعمت ہے اور حساسیت کمیاب۔ حساسیت کی ایک انتہا بے حسی ہے تو دوسری ذہنی مریض جنم دینے کا باعث۔ ان دونوں انتہاؤں کے درمیان ایک اور راہ ہے۔ اس راہ کے مسافر بہت ہی نایاب ہیں مگر اسی راہ کا شعور دینے کی ضرورت ہے ۔اس راہ کو پا جانے والے لوگ یہ فریضہ خوش اسلوبی سے انجام دیا کرتے ہیں۔ اس راہ کے مسافر منزل مقصود پر پہنچ کر گوہر مراد پاتے ہیں اور فیض رسانی کا فریضہ خوش اسلوبی سے انجام دیتے ہیں۔ یہ لوگ استاد ہوں، لیڈر ہوں، لکھاری ہوں، عالم ہوں یا دانشور یا آپ سے کم رتبے والے لوگ ہی کیوں نہ ہوں۔ ان کی قدر کیجئے کہ یہی ہمارا اثاثہ ہیں اور یہی مثبت اور تعمیری سوچ کی راہ ہموار کرنے والے ہیں۔ اللہ ہمیں احساس کی نعمت سے نوازے اور اعتدال کی روش پر گامزن کر دے۔ آمین