میڈیاکے معاشرے پر اثرات

 

اب سے کچھ عرصہ پہلے تک کسی بھی ریاست کے تین اہم ستون مقننہ، انتظامیہ اور عدلیہ کہلائے جاتے تھے۔ مگر اب کسی بھی تبدیلی کو لانے کے لئے ہر جمہوری ملک کا چوتھا ستون میڈیا کو گردانا جاتاہے۔ کسی بھی مسئلے کے متعلق لوگوں کے ذہنوں کو ہموار کرنا، موافق یا مخالف رائے بنانا میڈیا کے بائیں ہاتھ کا کھیل ہے۔

ہر قوم، ملک اور تحریک کو اپنی بات لوگوں تک پہنچانے کے لئے میڈیا کا ہی سہارا لینا پڑتا ہے۔ گویا یہ وہ طاقتور ہتھیار ہے جس کی بدولت دونوں طرح کی جنگ لڑی جا سکتی ہے۔ کیونکہ معاشرے کی اخلاقی تعمیر و ترقی میں اہم کردار ادا کرنا یا معاشرے کو اخلاقی زوال کی طرف دھکیلنا میڈیا یہ دونوں طرح کے طرز عمل اپنا سکتا ہے۔

لیکن بد قسمتی سے عالمی میڈیا یہو دیوں کی مٹھی میں ہے۔ جنھوں نے تمام اخلاقی اصول بالائے طاق رکھ چھوڑے ہیں۔ لہٰذا انتہائی منصوبہ بندی کے ساتھ وہ مغربی فکر و تہذیب کا پرچار کر رہے ہیں جس کے اثرات مغربی دنیا کے عین مطابق مرتب ہو رہے ہیں۔

۱۹۹۰ کی دہائی کے بعدجو الیکٹرانک میڈیا کے ابھار کا زمانہ تھا۔ اچانک سے کیبل، فلموں ڈراموں اور نت نئے اشتہارات کی یلغار نے عوام کو تفریح فراہم کرنے کے نام پر اپنی گرفت میں لینا شروع کیا اورانٹر نیٹ اور ویب سائٹس کی دنیا کھلنے تک یہ شکنجہ مضبوط سے مضبوط تر ہوتا گیا۔ گویا ہماری نکیل میڈیا کے ہاتھوں میں ہے۔ مغرب نے میڈیا کے ذریعے اس قدر منظم منصوبہ بندی سے اپنے نظریات کی تشہیر کی ہے کہ موجودہ دور میں کچھ عرصہ قبل اپنے بچوں کی بگڑتی زبان، کارٹون کے ذریعے بے حیائی، مختلف ڈرامائی یا فلمی کرداروں کو حقیقی سمجھنے اور ان کے اخلاق و کردار کے حوالے سے پریشان ہونے والی مائیں آج خود مارننگ شوز، کھانے پکانے کی ترکیبوں کے پروگرامات میں الجھی نظر آتی ہیں۔ فلاں ڈرامے میں فلاں کردار اب اگلی قسط میں کیا کرے گا، یا کیا کرنا چاہئے؟ جیسے درد سر پالتی پھرتی ہیں۔ فلاں پروگرام دیکھا؟ ہاں کی صورت میں تبصرہ، ورنہ معلومات کے در آپ پر روشن کئے جائیں گے۔

مرد حضرات جن کو سیاست سے دلچسپی ہے۔ میڈیا کے صحیح خطوط پر عوام کی ذہن سازی کے نام پر ہونے والے مختلف سیاسی ٹاک شوز کا شکار ہو رہے ہیں۔ جن میں ہونے والی بحث و تکرار کے ذریعے رائے عامہ کو اپنے مطابق ہموار کرنا میڈیا کا مشغلہ ہے۔ جبکہ درمیانی اشتہارات ان کے ذہنوں پر الگ جادو جگاتے رہتے ہیں۔

کھیلوں کے شوقین، مختلف کھیل کے چینلز کے گرد کھومتے نظر آتے ہیں۔ جن میں کھیل کے دوران ہر چھکے چوکے پر تھرکتی ہوئی تتلیاں بظاہر تفریح فراہم کرتی ہیں حالانکہ دراصل بے حیائی کو فروغ دینے کے لئے دیکھنے والوں کی آنکھوں کو وقفے وقفے سے ایک ہی منظر دکھا کر، پھر ایسے ہی مناظر دکھانے کا عادی بنایا جاتا ہے۔

غرض مغربی ذرائع ابلاغ نے انسانیت کے ہر طبقے سے اپنی وفاداری نبھاتے ہوئے، ان کے سوچنے سمجھنے کے زاویے سے لے کر بول چال، کھانے پینے، رہنے سہنے، گھریلو طورطریقے اور معاملات تک بدل دئیے ہیں۔ لمحہ ء فکریہ ہے کہ میڈیا کی یہ کارستانیاں صرف معاشرتی ہیں جبکہ عالمی، مغربی میڈیا نے مسلمانوں اور اسلام کے خلاف ایک ایسا محاذ کھول رکھا ہے جس کے اثرات پوری دنیا میں پہنچتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف نفرت، انھیں دہشت گرد، بنیادپرست اور انتہا پسند کہہ کر ان کو مذاق کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ مختلف رسائل اور خبر رساں ایجنسیوں کے ذریعے مسلمانوں کے خلاف ایسے منصوبوں پر عمل در آمد کیا جاتا ہے۔ جن سے اسلام کو پوری دنیا میں بدنام کیا جانا اور جعلی اسلامی ویب سائیٹس کے ذریعے نو مسلم اور کم علم نو جوان طبقے کو گمراہ کیا جانا بھی ہمارے لئے چیلنج ہے۔

بہرحال دردمندی سے اس بات کی ضرورت محسوس ہوتی ہےکہ ہم میڈیا پر اپنی گرفت مضبوط کر کے اسے صحیح سمت کی طرف موڑنے کے لئے جدوجہد کا آغاز کریں۔ جس کے لئے ہمیں اعلی معیار کی میڈیا تعلیم و تربیت کے ساتھ ساتھ صحافت عامہ میں اسلامی روح کو بیدار کرنا ہو گا تاکہ ہم مغربی فکر و تہذیب کی خرابیوں کو اجاگر کریں اور اسلام کو در پیش چیلجز کا منہ توڑ جواب دے سکیں۔