ہزاروں سال نرگس اپنی بے نوری پہ روتی ہے
بڑی مشکل سے ہوتا ہے چمن میں دیدہ ور پیدا
25 ستمبر 1903 میں اورنگ آباد کے خواجہ قطب الدین مودود چشتی کے ہاں جس بچے نے آنکھ کھولی، اس کا بیالیسواں یوم وفات ہے۔ لاکھوں بچے ہر روز پیدا ہوتے ہیں مگر چند ایک ہی گوہر نایاب کی حیثیت سے اپنے آپ کو منوا پاتے پیں۔ والدین نے ابوالاعلیٰ نام رکھا۔ اسم با مسمیٰ تھے اور ایک عظیم مجاہد، فکری محاذ، ابلاغ کے میدان اور نظریاتی پلیٹ فارم پر ان کی خدمات بے شمار ہیں۔
اوائل نوجوانی میں مختلف اداروں کے مدیر رہے۔ اصلاح کی یہ پکار اخبارات کے ذریعے تک ہی محدود نہ رہی بلکہ سوز دروں نے آپ رحمتہ اللہ سے ایک تحریک کی بنیاد رکھوائی جس کا نام جماعت اسلامی رکھا گیا۔ 1941ء میں قائم ہونے والی اس جماعت کی امارت کی ذمہ داری بھی آپ رحمتہ اللہ کو اٹھانا پڑی تاہم آپ نے یہ ذمہ داری بخوبی نبھائی۔ اس وقت جبکہ مسلمان سیاسی، معاشی، معاشرتی، اخلاقی اور دینی لحاظ سے پستی بدحالی کا شکار تھے، انگریز کے پنجہ استبداد سے رہائی اور ہندوؤں کی تنگ نظری سے چھٹکارا دلا کر ایک لاالہ الااللہ کی ریاست کا خواب مسلمانوں کو دکھایا گیا تھا مگر سید مودودی رحمتہ اللہ کی دوراندیش نگاہوں نے بھانپ لیا کہ یہ نعرہ مسلمانوں کو الگ ریاست کے حصول میں تو کامیاب کر دے گا مگر یہ ریاست لاالہ کے اقرار یعنی وقت کے طاغوتوں بھارت اور انگریز کی نفی بھی نہ کر پائے گی کجا کہ اس میں الا اللّٰہ کا نظام رائج ہو۔
نظریے کی اس جنگ کو آپ نے اپنے قلم سے سہارا دیا اور لادینیت، سرمایہ داری، سوشلزم سے لے کر مغربی تہذیب کے چمکدار چہرے سے نہایت حکمت سے یوں نقاب اتارا کہ لوگ اس کا اصل چہرہ بھی دیکھ لیں اور اسلامی تہذیب کو قابل فخر بھی جاننے لگیں پردہ، سود، ضبط ولادت سے لے کر جہاد فی الاسلام لکھ کر اسلامی نظریات کے علمبردار ہونے کا یقین دلایا اور مغرب کی چرب زبانیوں کو بے نقاب کرتے ہوئے اسلام کے آلودہ اور اور اٹے ہوئے چہرے کی اصل صورت سے دنیا کو روشناس کروایا۔ آپ عالم، دانشور، محقق، فلسفی اور ماہر نفسیات تھے اور ضرورت کے مطابق آپ نے اپنی ہمہ جہت شخصیت کی ان خوبیوں سے ملت کو مستفید کیا۔ فلسطیین کا مقدمہ بھی جاندار طریقے سے عالمی سطح پر اٹھایا اورمصر کی قومیت پرست تحریک کو بھی دلائل سے کچلنے میں اہم کردار ادا کیا۔
جدید جاہلیت سے پیدا ہونے والے مسائل مثلاً حقوق نسواں، ضبط ولادت و خاندانی منصوبہ بندی اور اختلاط مردو زن جیسے فسادات کا مدلل طریقہ سے توڑ کیا۔ٹرانس جینڈر ایکٹ کی صورت میں اس ماڈرن جہالت کے پوشیدہ عزائم سے نقاب آپ رحمۃ اللہ کے فکری وارث نے ہی اتارا۔ آپ پر تنقید کی بوچھاڑ کرنے والے بھی کم نہ تھے، کفر کے فتوے بھی آپ پر لگائے گئے مگر آپ نے کھلی آنکھوں سے محض تقلید کی بجائے جدید دور کے مسائل اور تقاضوں کو مد نظر رکھتے ہوئے اسلام کی حقانیت ثابت کی۔ خود ساختہ اور مصنوعی نظاموں کو طاقت قلم سے کاٹ دیا اور وقت نے ثابت کیا کہ یہ سب ازم محض خرافات ہیں۔ نیشل ازم سے لے کر سیکیولرازم تک اور سوشل ازم سے لے کے کیپیٹل ازم تک سب، درجہ بدجہ سید کی پیش گوئیوں کے مطابق ریت کی دیوار ثابت ہوئے۔
ساتوں براعظموں میں آپ کے حریت پسندافکار کا ڈنکا بج رہا ہے جو ہمیشہ مثبت تبدیلی کا باعث بھی بنتا رہا ہے۔ بطور مصنف آپ اسلامی نظریے کے محافظ ہیں تو بطور قائد اتحاد المسلمین اور اجتماع ملت کے لئے آپ کی خدمات نا قابل فراموش ہیں۔رسائل و مسائل آپ کی عام لوگوں سے خیر خواہی اور دلچسپی کا منہ بولتا ثبوت ہے تو ترجمان القرآن آپ کے فکری کام کو جاری رکھے ہے۔ آپ کی کتابیں نظریات اور رفقاء آپ کی فکر کٹھن حالات میں بھی عام کر رہے ہیں۔ آپ کو وقت کا ابن تیمیہ، امام المسلمین یا المسلم العظیم جو بھی کہا جائے بجا ہے۔ یہ بطل عظیم جس کے احسان کا بدلہ امت مسلمہ تا قیامت نہیں اتار سکتی نے 22 ستمبر 1979ء میں داعی اجل کو لبیک کہا اور اسی شہر میں مدفون ہوئے جہاں غازی علم الدین اور اقبال آسودہ خاک ہیں۔ اللہ ہمیں اس فکر کا فہم عطا کرے اور وقت کے مسائل سے اس فکر کی روشنی نبٹنے کی توفیق دے۔ اللہ کی بے شمار رحمتیں اس نجات دہندہ پر برسیں۔ آمین