پاکستان کے بڑے مسائل میں غربت، سیلاب، ڈینگی اور بجلی کی قیمتوں میں اضافہ، کھانے پینے کی اشیاء، پیٹرولیم مصنوعات کی بڑھتی قیمتیں شامل ہیں جبکہ سونے پر سہاگہ یہ کہ جان محفوظ ہے نہ مال اور پھر بھی پاکستانی جی رہے ہیں اور امید لگائے بیٹھے ہیں کہ حالات ٹھیک ہوجائیں گے۔
کیا حالات خود ٹھیک ہوں گے یا انہیں بہتر کرنے کیلئے کوئی آئے گا؟ گزشتہ 75 برسوں میں بہت سے تجربہ کار پاکستانی ماہرینِ معاشیات دنیا بھر میں کام کا تجربہ حاصل کرنے کے بعد پاکستان میں آئے مگرہماری معیشت کو سنبھال نہ سکے۔ اور اب یہ عالم ہے کہ ہم صرف تنقید برائے تنقید سنتے رہتے ہیں، چاہے وہ سیاستدان ہوں، یا ماہرِمعاشیات ۔ خدشہ یہ ہے کہ اگر صورتحال اسی طرح رہی تو پھر ایک دن پاکستان اپنی خودمختاری کھو بیٹھے گا۔
اس ملک میں سیاستدان جب تک اپوزیشن میں ہوتا ہے، اسے ہر وہ چیز بری نظر آرہی ہوتی ہے جو حقیقتاً ملک کیلئے بری ہوتی ہے، مگر حیرت کی بات یہ ہے کہ جب یہی اپوزیشن حکومت میں آتی ہے تو اسے وہی چیزیں دکھائی نہیں دیتیں۔ معیشت کو بہتر کرنے کیلئے سب سے پہلا کام پاکستانیوں کو حب الوطنی کا درس دینا ہوگا کیونکہ وہ گھر بھی کبھی آباد نہیں ہوتے جن گھروں میں لوگوں میں نااتفاقی پائی جاتی ہو۔
سیلاب سے قبل پاکستان کے جی ڈی پی کا تخمینہ 6 فیصد کی ترقی ظاہر کر رہا تھا مگر آج ماہرینِ معاشیات کا کہنا ہے کہ تخمینہ 3فیصد رہ گیا ہے۔ کیا ہم 3فیصد تخمینہ بھی پورا کرسکیں گے؟ کیونکہ 33 ملین لوگ سیلاب کی مصیبت کا شکار ہیں۔ ابھی تک ساڑھے 8 لاکھ سے زائد مویشی اس سیلاب کی نذر ہوچکے ہیں۔ پاکستان کی زرعی نمو تباہ و برباد ہوچکی ہے۔ اب پاکستان کی مجبوری ہوگی کہ کھانے پینے کی اشیاء گندم، سبزی، مصالحہ جات، دالیں اورخوردنی تیل سمیت تقریباً تمام اشیائے خوردونوش بیرونِ ممالک سے درآمد کرے جس سے ہماراامپورٹ بل بڑھ جائے گا۔
اس مہنگائی کو قابو کرنے کیلئے ہمیں ٹریڈنگ کارپوریشن آف پاکستان کے اندر ایسے قابل لوگ رکھنے ہوں گے جو دنیا کی معیشت کو سمجھیں اور تجربہ کار کاروباری حضرات ہوں۔ کیونکہ بیوروکریسی سے آئے ہوئے لوگ صرف اور صرف طے شدہ طریقہ کار کے مطابق امپورٹ کرتے ہیں جس کا ایکسپورٹرز بخوبی فائدہ اٹھا لیتے ہیں اور اپنی من مانی قیمتوں پر پاکستان کو اشیاء فروخت کرتے ہیں۔ اکثر یہ تجارتی لوگ کارٹن بنا کر قانونی داؤ پیچ آزماتے ہوئے اپنی من مانی قیمتوں پر پاکستان کو اپنا مال بیچتے ہیں، جس سے تجارتی لوگ بے تحاشہ منافع کماتے ہیں مگر پاکستان میں مہنگائی کا طوفان آجاتا ہے۔
آج تک اس مافیا کو پاکستان نہ ٹی سی پی میں ختم کرسکا اور نہ ہی پی ایس او میں، جس کی وجہ سے جب بھی قانونی کارروائی کے مطابق ٹینڈر جاری کیے جاتے ہیں تو پاکستان میں کچھ لوگوں کا ٹولہ ہوتا ہے جوملک کو مہنگی ترین قیمتوں پر اشیاء بیچ رہے ہوتے ہیں۔ یہ ادارے جو چیزیں خریدتے ہیں، ان کی کوئی خریداری کسی اسٹرٹیجک طریقےسے نہیں کی جاتی، اور نہ ہی ان کے پاس وہ تجزیہ کار ہیں جو مارکیٹ کا مطالعہ کرتے ہوئے منڈی کے اتار چڑھاؤ کو مدِ نظر رکھتے ہوئے کم قیمتوں پر اور صحیح وقت پر خریداری کریں، نہ ہی یہ ادارے کوئی ذمہ داری لینے کو تیار ہوتے ہیں۔
حقیقت تو یہ ہے کہ ان اداروں پر پاکستان کی معیشت کی بھاری ذمہ داری عائد ہوتی ہے مگر یہ صرف اور صرف قانونی کارروائی کرتے ہوئے پروکیورمنٹ کرتے ہیں اور اپنے فرائض سے پہلو تہی کرتے ہیں۔ ان اداروں کو قانونی کارروائی کے ساتھ ساتھ ذمہ داری لینی ہوگی کہ وہ کم سے کم قیمت پر اشیاء خریدیں، تاکہ پاکستان کی معیشت بہتر ہو۔ مگر یہ ادارے پچھلے 75 سالوں میں آج تک کبھی سستی اشیاء نہیں خرید سکے۔ ان کے کام کرنے والے ملازمین صرف اور صرف اپنی ڈیوٹیاں 9 سے 5 تک انجام دیتے ہیں جو کہ ایک روٹین کے تحت لوگوں سے اشیاء خریدتے اور بیچ دیتے ہیں۔ جس طرح گزشتہ 75 سالوں میں ٹی سی پی اور پی ایس او نے خریداری کی ، پاکستان کبھی بھی ترقی نہیں کرسکتا۔ پاکستان میں مہنگائی کو کم کرنے کیلئے ان اداروں کو نئے طریقے سے چلانا ہوگا تاکہ یہ پاکستان کیلئے کم سے کم قیمت پر خریداری وقت پر کریں۔
پی ایس او جو مہنگا تیل خریدتا ہے، اس کی وجہ سے حکومتوں کو پیٹرول کی قیمتیں مجبوراً بڑھانی پڑ جاتی ہیں جس سے مہنگائی میں ہوشربا اضافہ ہوتا ہے۔ دنیا بھر میں مختلف ممالک میں پی ایس او جیسے سرکاری ادارے ہوتے ہیں مگر ان کی خریداری کچھ اس طرح ہوتی ہے کہ وہ اپنے ملک کیلئے کم سے کم قیمت پر اشیاء ذخیرہ کرتے ہیں تاکہ مصیبت اور مہنگائی کے دور میں انہیں استعمال کیا جاسکے۔ پاکستان میں یہ جواچانک سے شارٹیج آتی ہے، چیزیں غائب ہوجاتی ہیں اور مہنگی خریداری کرنی پڑتی ہے، اس کی وجہ صرف اور صرف غلط پلاننگ کے تحت سامان کی خریداری ہے۔ پیٹرول کی مہنگائی کو اگر ہم چھوڑ بھی دیں تو دوسری جانب ٹی سی پی کی وجہ سے مہنگی گندم، کھانے پینے کی مہنگی اشیاء جو حکومت ٹی سی پی کے ذریعے خریدتی ہے، اس کی سزا عوام کو ملتی ہے۔ کیا ہم ان اداروں کی انتظام کاری کیلئے بھی پاک فوج کو بلائیں؟ کیونکہ وہ واحد ادارہ ہے جو ہر کام پلاننگ کے تحت کرتا ہے، مگر دیکھا یہ گیا ہے کہ جب ریٹائرڈ فوجیوں کو ان اداروں میں رکھا جاتا ہے تو ان کو بھی مافیا خراب کرنے کی کوشش کرتا ہے۔
پاکستان میں ہر شخص مہنگائی کا رونا رونے پر مجبور ہے مگر حکمران صرف اور صرف لوگوں کو طفل تسلیاں دیتے اور بے بنیاد بیانات سے وقت گزاری کرتے ہیں۔ اب پاکستان میں خصوصاً کراچی کے لوگوں کیلئے جینا مشکل ہورہا ہے۔ بجلی مہنگی، کھانا پینا مہنگا، انسان کی جان ان غنڈوں سے محفوظ نہیں جو سر عام سڑکوں پر لوگوں کو لوٹ کر ان کی جان لے لیتے ہیں۔ یہی دور چلتا رہا تو کراچی جیسا ملک کا سب سے بڑا شہر جو پورے پاکستان کے کاروبار کو چلاتا ہے، وہ بھی کاروبار جاری نہیں رکھ سکے گا جبکہ مذکورہ 2 اداروں ٹی سی پی اور پی ایس او کے بعد مہنگائی کا تیسرا ذمہ دار ادارہ پولیس کو بھی قرار دیا جاسکتا ہے۔
ضرورت اس بات کی ہے کہ حکومت کراچی میں آنے والی ٹول پلازوں پر سخت چیکنگ رکھے تاکہ دہشت گرد اور چور ڈاکو شہر میں داخل نہ ہوسکیں۔ کیونکہ جب یہ چور ڈاکو شہر کے اندر اسلحے سمیت آجاتے ہیں تو انہیں پکڑنا بہت مشکل ہوجاتا ہے کیونکہ یہ لوگ کراچی کی کروڑوں کی آبادی میں شامل ہوجاتے ہیں۔
خدارا کراچی میں اور کراچی کے باہر سخت انتظامیہ رکھیں تاکہ کراچی کم سے کم امن و امان کے ساتھ مہنگائی کا مقابلہ کرتے ہوئے معیشت کو بہتر کرنے میں اپنا کردار ادا کرسکے۔