سیلاب متاثرین کا دُکھ

اچانک مکان سے جھونپڑی میں منتقل ہوجانا، کھیتی کا تباہ ہوجانا، روز گار کا چھن جانا، پراسائش زندگی سے بے سرو ساماں ہوجانابہت ہی کربناک ہوتاہے، باری تعالیٰ کسی کو ایسی سخت آزمائش میں مبتلا نہ کرے۔ ہمیں سیلاب اور طوفانی بارشوں سے متاثرہ افراد کے دکھ کو محسوس کرتے ہوئے ان کی ہر ممکن مدد کرنا چاہئے۔ نیشنل ڈیزاسٹر منجمنٹ اتھارٹی نے ملک بھر میں سیلاب اور تباہی کی موجودہ صورتحال پر ایک بریفنگ میں بتایا ہے کہ پاکستان میں آنے والاسیلاب تاریخ کا سب سے بڑا سیلاب ہے، حالیہ ہونے والی بارشیں پچھلے تیس سال کی نسبت 190 فیصد زیادہ ہیں جبکہ سندھ میں 465 فیصد اور بلوچستان میں 437 فیصدزیادہ بارشیں ہوئیں۔ سرکاری اعداد و شمار میں یہ بھی بتایا گیا کہ ملک بھر میں 16 لاکھ 88 ہزار گھر، 246 رابطہ پل، 5 ہزار735 کلو میٹر پر محیط سڑکیں،اور ساڑھے 7 لاکھ مویشی سیلابی ریلوں کی نذر ہوئے۔ اس وقت تک کی اطلاعات کے مطابق مجموعی طور پر 1325 افراد لقمہ اجل بنے اور 13 ہزار سے زائد افراد زخمی ہو چکے ہیں۔ سیلاب اور بارشوں نے کئی علاقوں کو ملبے کے ڈھیر میں تبدیل کر دیا ہے ،مکانات منہدم، کھڑی فصلیں تباہ ہو چکی ہیں۔ متاثرین کے پاس نہ اوڑھنے بچھانے کو ہے اور نہ ہی کھانے پینے کا سامان، حکومتی مدد کے منتظر متاثرین دکھ اور بے بسی کی تصویر بن چکے ہیں۔

انفراسٹرکچر کو شدید نقصان پہنچا ہے اور رابطہ سڑکیں شدید متاثر ہوئی ہیں علاقے میں سڑکیں بہہ جانے کی وجہ سے آمدورفت ممکن نہیں رہی جس کی وجہ سے درجنوں دیہات میں لوگ محصور ہو چکے ہیں اور خوراک کی قلت کا شکار ہیں۔ صوبہ سندھ ، بلوچستان اور پنجاب کے درمیان رابطہ سڑکیں ، ریلوے لائنیں اور پل زیر آب آنے اور ٹوٹنے کے باعث اکثر زمینی رابطے منقطع ہو چکے ہیں اور ریلیف کی فراہمی میں مشکلات پیدا ہو گئی ہیں۔ ان حالات میں لوگ چیخ چیخ کر پکار رہے ہیں کہ ہمیں بچایا جائے ، ان حالات میں فوری ضرورت یہ ہے کہ سیلاب زدگان کی ہر طرح سے مدد کی جائے۔ معمول سے چار سو فیصد زیادہ طوفانی بارشوں اور ناگہانی سیلابی ریلوں نے جو تباہی مچائی ہے پاک فوج خود اپنی جانیں خطرے میں ڈال کر ہنگامی بنیادوں پر امدادی کارروائیوں کو نہ پہنچتی تو جتنے نقصانات ہو چکے اور ہوتے جا رہے ہیں اس سے کہیں زیادہ آفت ٹوٹتی، قوم مصیبت کے ان لمحات میں فوج کے تعاون اور قربانیوں کو ہمیشہ یاد رکھے گی۔ سیلاب کی سنگین صورتحال میں مخیر افراد کو بھی اپنا کردار ادا کرتے ہوئے مثاثرین کی مدد کرنی چاہیے، بلاشبہ انسانوں کی بے لوث خدمت کے لئے مسلمانوں کی قربانی انسان دوستی کے بیش قیمت جذبوں کی ترجمانی کا فریضہ سر انجام دیتی ہے اور انہیں دوسرے انسانوں سے ممتازکرتی ہے۔

جبکہ دنیا بھر میں موسمیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ایسی مشکلات آئندہ زیادہ سنگین صورت میں ظاہر ہونے والی ہیں جس کے سدباب کیلئے حکومت کو ابھی سے دور اندیشانہ فیصلے اور اقدامات کرنا چاہیے، اس حوالے سے تاخیر یا کوتاہی کی اب کوئی گنجائش باقی نہیں ۔ گلوبل وارمنگ کی بنا پر ایک طرف گلیشیر پگھل رہے ہیں تو دوسری جانب درجہ حرارت کے بڑھنے سے غیر متوقع بارشیں ہو رہی ہیں،جس نے ملک میں سیلابی کیفیت پیدا کر دی ہے ۔ پاکستان کے شمال مغربی حصوں میں رونما ہونے والے کلاوڈ برسٹ کے واقعات ہمیں اس بات پرمجبور کر رہے ہیں کہ ہم نا صرف پانی کی قلت پر قابو پانے کیلئے اقدامات عمل میں لائیں بلکہ اضافی پانی کو ذخیرہ کرنے کی بھی کوئی تدبیر اختیار کریں۔ پاکستان کوسمندر میں گرکر ضائع ہونے والے پانی ذخیرہ کرنے کی اشد ضرورت ہے۔ خاص طور پر سیلاب کی تباہ کاریاں دیکھتے ہوئے پانی ذخیرہ کرنے کی ضرورت اور بڑھ گئی ہے ۔ ہمیں بڑے بڑے ڈیموں کی ضرورت ہے ، دیا میر بھاشا ڈیم، ساڑھے 6 ملین ایکڑ فٹ پانی جبکہ کالا باغ کے مقام پر بھی 6 ملین ایکٹرفٹ پانی جمع کیا جا سکتا ہے ،کالا باغ کی ایک خصوصیت یہ بھی ہے کہ اس میں دریائے کابل کا سیلابی پانی بھی روکا جا سکتا ہے ۔گلوبل وارمنگ اور مون سون کی شدت اور درجہ حرارت کے بڑھنے سے کلاوڈ برسٹنگ کی وجہ سے آئندہ بھی ایسے سیلابوں سے واسطہ پڑ سکتا ہے ،ضرورت اس امر کی ہے کہ تمام دستیاب مقامات پر آبی ذخیرے تعمیر کئے جائیں تاکہ نا صرف سیلابی پانی کو ذخیرہ کیا جا سکے بلکہ مستقبل میں جانی ومالی نقصانات سے بچا جا سکے ۔