ایک پاکیزہ اور صحت مند معاشرے کی ایک علامت یہ بھی ہے کہ تمام رشتے ناطے خیرخواہی اور اعتماد کی مضبوط ڈور سے بندھے ہوں۔ معاشرے کی تربیت کرنے والے عوامل اور قانون ساز اداروں کا کام ہے کہ ایسی فضا پیدا کریں ایسی قانون سازی کریں کہ پاکیزہ اخلاقی قدریں پروان چڑھیں۔ خاندان کا نظام مضبوط سے مضبوط تر ہو مگر افسوس صد افسوس ہمارے ہاں گنگا الٹی بہتی ہے۔ عوام کی ذہن سازی کا ذمہ دار میڈیا کا کردار واضع ہے۔ تمام اخلاقی قدروں کا جنازہ بڑی دھوم دھام سے نکالتا ہے یہ میڈیا۔
دوسری طرف مسلم لیگ ن، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی تینوں جماعتیں عوام کے مفاد کی خاطر تو کبھی ایک نہیں ہوتیں مگر انٹر نیشنل این جی اوز اور مغربی ممالک کے دیئے گئے ایجنڈے پر قانون سازی کرنے اور پھر بلاؤں کو عوام پر مسلط کرنے کے لئے سب ایک ہیں ۔ اس کی تازہ مثال ٹرانس جینڈر ایکٹ ہے۔
قارئین کو معلوم ہونا چاہئے کہ ہمارے پارلیمنٹ میں قانون سازی یوں کی جاتی ہے کہ نام تو کسی حقیقی مسئلہ کا لیا جاتا ہے مگر ایجنڈہ کسی اور کا پورا کرتے ہیں۔ ہمارے ممبران پارلیمنٹ کسی مسئلہ پر کسی ٹاپک پر نہ ریسرچ کرتے ہیں نہ ہی اس کے اپنے معاشرے پر اثرات بارے سوچتے ہیں ۔شاید اس کی وجہ یہ ہے کہ یہ لوگ بظاہر تو اس ملک میں رہتے بستے ہیں مگر ان کے دماغ اور سوچ بچار کی ساری تاریں مغرب و یورپ کے ساتھ کنیکٹ (connect) ہوتی ہیں۔ پھر یہ بھی ہے کہ ان لوگوں کو معلوم ہے کہ جب ملک پر کوئی بڑی مصیبت آتی ہے تو یہ اور ان کے بال بچے تو محفوظ رہتے ہیں۔
بہرحال ہم وہ کہ جن کا جینا مرنا اس ملک کے ساتھ ہے ہم پاک وطن کی فضاؤں پر ہم جنس پرستی کے منڈلاتے سائے کو کسی صورت برداشت نہیں کرسکتے۔
کیونکہ:-
• مذکورہ ایکٹ کی ترویج و فروغ کے بعد ہر مرد کو یہ حق حاصل ہوگا کہ اگر اس کا میلانِ طبع عورت بننے کی طرف ہے تو بس نادرا آفس جائے اور شناخت تبدیل ہو جائے گی ۔ آگاہ رہئے کہ۔ وہ مرد ہزار آپریشن کر والے، تھیراپی کروا لے دوائیاں لے لے، وہ رہے گا مرد ہی بس کچھ ظاہری شناخت میں تبدیلی آ جائے گی اب یہ ٹرانس جینڈر شادی کس سے کریگا؟
ظاہر ہے مرد سے، تو ایسی شادیوں کا خدانخواستہ رواج چل پڑا تو معاشرے کے اندر جو ذہنی و جسمانی بیماریاں، انتشارِ فکری، ڈپریشن، خاندانی نظام کی ٹوٹ پھوٹ، لڑائی جھگڑے کا جو ماحول پیدا ہوگا تو کیا شیریں مزاری یا مسلم لیگ، پیپلز پارٹی، پی ٹی آئی اس وقت اس کا توڑ کر سکیں گے؟ اس وقت عوام کی بدحالی کا مداوا کرنے پہنچیں گے؟ جی ہاں ضرور پہنچیں گے بالکل جیسے سیلاب میں ڈوبتے مرتے انسانوں کی مدد و بحالی کے لئے پہنچ رہے ہیں۔
• جب مرد عورت کا روپ دھار لیں گے تو کیا یہ عورت کی شناخت اور حقوق پر ڈاکہ نہیں؟ اب حقوقِ نسواں کے نعرے کہاں رہ گئے؟
• یہ حقیقی مرد اور بظاہر عورتیں، خواتین کے لئے مخصوص مقامات پر آزادانہ آ جا سکیں گے تو شیریں مزاری بتانا پسند کریں گی کہ ایسی صورتحال میں ایک شریف عورت ، پاکیزہ زندگی گزارنے والی عورت کدھر جائے گی؟ تصادم کی جو فضا پیدا ہوگی کیا ہمارے لبرل عناصر کے پاس اس کا حل موجود ہے؟
• فرض کریں ایک مرد نے اپنی شناخت تبدیل کر لی ہے اور خود کو عورت ڈکلیئر کر دیا ہے اور وہ صاحب اولاد بھی ہے تو اب اس کی بیوی اس کی کیا لگی؟ اس کے بچے اسے باپ کہیں گے یا ماں؟ اور یہ بچے کیا ذہنی طور پر مطمئن رہ پائیں گے ؟ یہ کل کے معمار آج خود ہی ٹوٹ گئے تو کل کو اس ملک کی باگ ڈور کون سنبھالے گا؟ ظالم لبرل عناصر کو ہے کوئی پرواہ اس ملک کے مستقبل کی؟
• ایک متوسط درجہ کا گھرانہ جو بچوں کے تعلیمی اخراجات بھی بمشکل پورا کر پاتے ہیں، فرض کریں ان کی اٹھارہ، بیس سال کی بچی خود کو لڑکا ڈکلیئر کر دیتی ہے اور ماں باپ سے ضد شروع کر دیتی ہے کہ مجھے آپریشن کے لئے، ویکسنگ کے لئے، دوائیوں کے لئے رقم دیں ۔۔۔ اور اس دوران ظاہر ہے اس کا دماغ اپنی تعلیم یا گھر کے اندر جو اس کا کردار ہے، اس پر یکسو تھوڑا ہی رہے گا۔ اب جو والدین پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہیں، کیا کریں گے وہ اس اضافی شغل کے لئے کہاں سے رقم لائیں گے؟
مزید برآں ۔۔۔ اب یہ (حقیقی) لڑکی جو کہ بظاہر لڑکا بن چکی ہے کل کو ایتھلیٹس کے کسی مقابلے میں حصہ لیتی ہے اور مد مقابل کسی حقیقی لڑکے کے ایک ہی مکے سے زخمی ہو جائے تو کیا شیریں مزاری اس کی داد رسی کے لئے پہنچیں گی؟ (ایسے واقعات مغربی ممالک میں ہو چکے ہیں)
یہ LGBTQ اپنے ساتھ بے شمار نحوستیں رکھتی ہے ، مغربی ممالک برداشت کر رہے ہیں ہاں بطور قانون تو یہ وہاں بھی تاحال نافذ نہیں ہوا۔
تو پیارے قارئین ! آئیے اپنے روشن کل کی خاطر ، اپنی نسلوں کی بقاء کی خاطر، معاشرتی نظام، خاندانی نظام کو ٹوٹ پھوٹ سے بچانے کی خاطر LGBTQ کے خلاف آواز اٹھائیں۔
سینیٹر مشتاق احمد خان صاحب نے اس ایکٹ میں ترامیم پیش کی ہیں کہ
• اس قانون میں ٹرانس جینڈر پرسن کی تعریف نمبر 2 اور 3 جس میں مکمل مرد و عورت کو ٹرانس جینڈر قرار دیا گیا ہے، ختم کیا جائے۔
• ٹرانس جینڈر کے لئے جنس کا تعین Self perceived gender identity کے بجائے میڈیکل بورڈ سے مربوط کیا جائے۔
پیارے قارئین! قبل اس سے کہ بہت دیر ہو جائے ان ترامیم کی حمایت میں آواز اٹھائیے۔