بھوکے کا واقعی کوئی مذہب نہیں ہوتا۔ انسان خالی پیٹ ہو تو رام کا لڈو بھی کھا لیتا ہے اور رحیم کی کھیر بھی، مقصد صرف پیٹ کے دوزخ کی آگ بجھانا ہوتا ہے اور آج تو ایسا لگ رہا ہے کہ آدھا سندھ بھوکا ہوگیا ہے لیکن نہ ان کو رام کا لڈو مل رہا ہے اور نہ ہی رحیم کی کھیر۔ شاہ لطیف کی دھرتی پر آج وحشت کے سائے ہیں۔ موت کا رقص جاری ہے اور زندگی سسک رپی ہے۔ سیلاب اور بارش کا پانی وادی مہران کے لوگوں کی امیدوں اور ارمانوں کو اپنے ساتھ بہاکے لے گیا ہے۔ میں حیران ہوں کہ سندھ کے حکمران اس سیلابی پانی سے بھی شرم کے مارے پانی پانی نہیں ہوئے۔
اقوام متحدہ کے سیکریٹری جنرل کے ساتھ ریڈ کارپٹ پر چلنے والے بھٹو کے وارث بلاول کو کوئی بتائے کہ سندھ کے لاکھوں بلاول ننگے پاؤں اور بھوکے پیٹ روٹی کی تلاش میں ہیں۔ کوئی شہید بے نظیر کے صاحبزاے کو بتائے کہ سائیں سندھ کی لاتعداد بے نظیروں کہ گود اجڑ گئی ہے اور وہ خالی آنکھوں سے دیکھ رہی ہیں کہ ان کے جگر گوشوں کودفنانے کے لیے خشک زمین بھی میسر نہیں ہے۔ اپنی کشتی ذرا سی ڈول جانے پر ڈپٹی کمشنر کو نشان عبرت بنانے والے سائیں مراد علی شاہ کو کون سمجھائے گا کہ سنھ کی نگری میں ان کی رعایا کی سانس کی ڈوریں ڈول رہی ہیں لیکن کوئی ان کا مداوا کرنے کو تیار نہیں اور کوئی سائیں آصف علی زرداری کو ہی سمجھا دے کہ ملکہ برطانیہ کی تعزیت کے لیے جانا آپ کا فرض ہی سہی لیکن وہ جو آپ کو ووٹ دے کر بے اماں ہیں ان کے سروں پر ہاتھ رکھنا بھی آپ کا ہی فرض ہے۔
میں سوچ رہا ہوں کہ اگر الخدمت، جے ڈی سی، ایدھی اور ان جیسی دیگر این جی اوز سمیت پاک فوج نہ ہوتی تو آج سندھ کا کیاحال ہوتا ؟ یہ سیلاب سندھ کو پتھر کے دور میں واپس لے جاتا۔ آپ جاکر سیلاب متاثرین سے پوچھیں وہ آپ کو بتائیں گے کہ سندھ میں حکومت نام کی کوئی چیز نہیں ہے۔ جس وڈیرے کا جہاں بس چلا اس نے وہاں کٹ لگاکر اپنی زمینیں بچالیں اور غریبوں کو کھلے آسمان تلے سسکنے پر مجبور کردیا۔ وہ غریب سندھی جو سیلاب اور بارش کے پانی سے بچ گیا تھا وہ اب بھوک اور مچھر کے کاٹنے سے مررہا ہے۔
بحیثیت قوم ہمارا یہ طرہ امتیاز رہا ہے ک ہم مصیبت کی گھڑی میں ایک ہوجاتے ہیں لیکن یہ سیلاب ایسا ہے کہ اس کو بھی ہم نے اپنی سیاست کی نظر کردیا ہے۔ ایک جماعت سوشل میڈیا پر مہم چلارہی ہے کہ عالمی ادارے امداد نہ دیں کیونکہ یہ رقم کرپشن کی نظر ہوجائے گی اور دوسری طرف حکمران ان متاثرین کی مدد کے لیے اپوزیشن رہنما کی جانب سے کی جانے والی ٹیلی تھون کو ٹیلی وژن پر نہیں چلنے دیتے۔ سب کے اپنے اپنے مفادات ہیں اور سب کی اپنی اپنی سیاست ہے۔ سیلاب متاثرین ان کے لیے ثانوی چیز ہیں۔ یہ غریب ان کی سیاست کا ایندھن ہی تو ہیں جو آج سیلاب سے مرگئے تو کیا ہوا کل ان کو بھوک سے بھی تومرجانا تھا۔
ساری توجہ کاسمیٹکس اقدامات پر ہے۔ مستقبل کا کوئی نہیں سوچ رہا۔ ان سیلابوں سے کس طرح بچا جائے اور ڈیمز کی تعمیر کے لیے تمام قومیتوں کو کس طرح اکٹھا کیا جائے یہ ان کے لیے ثانوی چیز ہے۔
مجھے ان سندھی قوم پرست سیاستدانوں کی بھی تلاش ہے جو “ڈیم نہ کھپے” کے نعرے لگاکر گزشتہ چالیس سے لوگوں کے جذبات سے کھیل رہے ہیں۔ آج مصیبت کی اس گھڑی میں وہ کہیں نظر نہیں آرہے ہیں۔ ان کو بس اپنی سیاست سے غرض ہے۔ ان کو یہ قدرتی آفت بھی ایک پلاننگ نظر آرہی ہے۔ یہ نہ خود کو بدلنے کو تیار ہیں اور نہ ہی ان کو سندھ کے لوگوں کی زندگیاں بدلنے سے کوئی سروکار ہے۔ ان لوگوں کے لیے “ڈیم تو نہ کھپے” لیکن سندھ کے مظلوموں کی “موت ضرور کھپے” ہے۔