ایک زمانہ تھا کہ بچوں کے سنورنے اور بگڑنے میں گھر کے ماحول کو بڑی اہمیت حاصل تھی ماں باپ کی تربیت لازمی امر سمجھا جاتا تھا اور یہ کچھ غلط بھی نہ تھا غریب کی جھونپڑی میں بھی ماں باپ کی اچھی تربیت ملتی تو وہ بچے روشن مثال کے طور پہچانے جاتے لیکن آج ایسا کچھ کم ہی نظر آتا ہے کچھ لوگ شاید میری بات سے اختلاف کریں لیکن اس حقیقت سے منہ نہیں موڑ سکتے کہ آج والدین اور بزرگوں کی بہترین تربیت کے باوجود بھی کچھ بچے بگڑنے میں دیر نہیں لگاتے جس کی وجہ گھروں سے باہر کا ماحول ہے، بیشک گھر کے اندر کا ماحول اور تربیت بے انتہا اہمیت کا حامل ہے لیکن باہر کی کیچڑ سے اپنا آپ بچانا ناممکن نہیں لیکن مشکل ہوگیا ہے خصوصاً صحبت سے۔ جسکے لئے والدین کا آنکھیں کھلی رکھنا لازمی ہوگیا ہے کہ گھر سے باہر بچےکے دوست کون اور کس قسم کے ہیں۔
میرا تعلق درس و تدریس سے ایک لمبے عرصے تک رہا ہے لہذا اس سلسلے میں، میرا مشاہدہ کافی رہا ہے اور اب میری بیٹی جو مقامی سرکاری کالج میں پروفیسر ہے اس کا تجزیہ بھی یہی ہے کہ آئے دن بچیوں کے ساتھ کوئی نہ کوئی مسئلہ ہوتا رہتا ہے جب ہم ان کے والدین سے اس سلسلے میں ملتے ہیں تو بے حد افسوس ہوتا ہے کہ ان میں سے اکثر و بیشتر والدین نہایت نیک اور سمجھدار نظر آتے ہیں اور اپنی بچیوں کے ساتھ پیش آنے والے واقعات پر آنسو بہاتے ہیں جو اپنی سہیلیوں کی باتوں میں آکر ایسے فعل میں مبتلا ہو جاتی ہیں، یعنی گھر کا ماحول تو یقیناً بہتر ہوگا لیکن دوستوں کے بہکاوے میں اگییں یہ صورتحال والدین کے لیے سخت پريشان کن ہے خربوزا خربوزے کو دیکھ کر رنگ پکڑتا ہے آج کا بڑا المیہ یہ بھی ہے کہ بچوں کو موبائل کی صحبت میسر ہے۔
جی ہاں صحبت موبائل کی ہو یا دوست کی اس کے اثرات لازمی طور پر پڑتے ہیں جیسا کہ حدیث مبارکہ سے واضع ہے کہ اچھے ساتھی کی مثال مشک والے جیسی ہےاگر تجھے اس سے کچھ نہ بھی ملےتب بھی خوشبو پہنچے گی اور برے ساتھی کی مثال بھٹی والے کی طرح ہےاگر تجھے (اسکی بھٹی کی) سیاہی نہ بھی پہنچے پھر بھی اس کا دھواں تو پہنچے گا؛( سنن ابی داؤد)۔
یقیناً نیک و دین دار لوگوں کی صحبت سے ضرور کچھ نہ کچھ حاصل ہوکر ہی رہے گا،میری اپنی بہوؤں اور بیٹی کو بھی ہمیشہ یہی نصیحت ہوتی ہے کہ بچوں کی گھر سے باہر کی سر گرمیوں پر مثبت طریقے سے ضرور نظر رکھیں انکے دوستوں سے ایک آدھ مرتبہ ہی سہی ضرور ملاقات کریں خصوصاً ٹین ایج میں جہاں ہر چیز نہ صرف فورا سیکھی جا سکتی ہے بلکہ اثر انداز بھی ہوتی اور اسی عمر کی عادتیں اور طریقے دیر پا بلکہ اکثر ہمیشہ قائم رہتے ہیں جیسا کہ اکثر مردوں سے معلوم ہوا ہے کہ انہیں سگریٹ نوشی کی عادت نوجوانی سے شروع ہوئی اور اب اس عادت سے جان چھڑانا ناممکن لگتا ہے میں نے کچھ ایسی لڑکیوں کو بھی دیکھا جن کے گھروں میں ستر پوشی کی تعلیم دی گئی لیکن کالج اور یونیورسٹی میں پہنچتے ہی ان کے لباس میں نمایاں تبدیلی آئی دوپٹہ تک غائب ہوگیا اور کچھ بچیوں نے اپنی دوستوں کو دیکھ کر عبایہ بھی پہن لیا۔
لہٰذا میری آج کے ماں باپ سے درخواست ہے کہ اپنی تربیت صرف گھر تک محدود نہ رکھیں بلکہ مثبت اور تعمیری انداز میں باہر بھی رکھیں کیونکہ آنے والا دور اس سے بھی خطرناک ہوسکتا ہے دجالی ہتھکنڈے مسلمانوں کے گرد گھیرا تنگ کرنے میں نئی نئی چالیں چل رہے ہیں انکا مقابلہ کرنے کیلئے اسلامی تعلیمات کے مطابق بچوں کی نہ صرف دیکھ بھال کرین بلکہ نظر رکھیں یہی حکمت عملی آج کے دور میں اولاد کی بہترین تربیت کے لئے لازمی ہے جس میں کوتاہی کے برے انجام سامنے اسکتے ہیں۔