آئیے دیکھتے ہیں محمد ﷺ کو سپہ سالار کے روپ میں۔ جی ہاں، آنحضورﷺ صرف مبلغ، استاد، مصلح نہ تھے بلکہ سالار لشکر بھی تھے، مکہ میں بھی کشمکش تو جاری ہی تھی مگر طائف وہ مقام تھا جہاں بغیر فوج کے جنگ ہوئی۔ یوں لگتا ہے کہ شاعر نے اسی کی ترجمانی کی ہے۔
ہو رہی ہے رات دن ہر سمت سے یلغار اب
لڑ رہا ہے بس اکیلا ہی سپہ سالار اب
جنگوں میں صفوں کی ترتیب، موزوں میدان کا چناؤ اور دشمن کو بے خبری میں جا لینا حتیٰ کہ اتنی رازداری کہ محمدﷺ کا اپنا قافلہ ٹارگٹ سے بے خبر ہوتا۔ اور پھر عام راستے سے ہٹ کر راہ اختیار کرنا نیز جنگی حکمت عملی ،میمنہ، میسرہ، ہر اول کی ترتیب اسی سپہ سالار نے سکھائیں جو بدر، احد کا فاتح تھا، تنظیم اور اطاعت امیر کا یہ درس بھی جنگی نصاب میں انتہائی اہم ہے کہ خواہ تمھیں پرندے اچک لے جائیں درہ نہ چھوڑنا۔
لشکر کی آنکھ مال غنیمت پہ ہے لگی
سالار قافلہ اور کسی امتحاں میں ہے
اسی سالار نے لشکر کو سکھایا اور رہتی دنیا تک مسلم فوج کو اصول دے دیا کہ
شہادت ہے مطلوب و مقصود مومن
نہ مال غنیمت نہ کشور کشائی
مگر افسوس کہ ہمارے محافظوں نے اقتدار کی اشتہا آمیز بو سونگھ کر بارہا درہ چھوڑا اور ملک کا نقصان کیا۔
چنتے ہو ایسا قافلہ سالار کس لئے
جو اہل کارواں کی حفاظت نہ کر سکے
مشاورت آپ ﷺ کا اہم جنگی اصول تھا یہی وجہ ہے کہ بدر، احد، خندق میں مشاورت اور پھر مشورے پر عمل کی مثالیں ملتی ہیں احد میں نوجوانوں کی رائے پر مدینہ سے نکل کر لڑنے کا فیصلہ ہوا تو خندق میں سلمان فارسی کا مشورہ قبول کیا گیا۔ سپہ سالار نے بیوی کی رائے کو بھی قبول کیا اور صلح حدیبیہ کے بعد قربانی کر لی۔ گویا سپہ سالار وہی بہترین ہے جو مثبت رائے کو نہ صرف سراہے بلکہ اجتماعی اور وسیع تر مفاد کے لئے اسے قبول بھی کرے۔ محمد ﷺ نے دس سالوں میں 227مربع میل پر اسلام نافذ کیا مگر مسلمانوں کا جانی نقصان 148 شہیدوں تک محدود تھا اور کل جانی نقصان بھی معمولی تھا۔ کوئی امن کا دعویدار یہ مثال پیش کرنے سے قاصر ہے۔ سالار ﷺ کی اس حکمت عملی کی آج بھی ضرورت ہے جس نے مکہ کی سرکش لوگوں کو بغیر خوں بہا کے تابع کر لیا۔ جنگی قیدیوں نے بہترین سلوک کی وجہ سے اسلام قبول کیا۔ مکہ فتح ہوا تو سالار لشکر محمد ﷺ کا سر عاجزی سے جھکا ہوا تھا۔
وہ قافلے جو محمدﷺ کا نمونہ چھوڑ کر بے مقصد اپنی جانوں کا ضیاع کر رہے ہیں اور نامعلوم ہدف پورا کر رہے ہیں ان سے کسی شاعر کے دیوان سے شعر مستعار لے کر اپیل ہے
تیری منزل تو کسی اور طرف ہے اور تو
اے مرے قافلہ سالار کہاں جاتا ہے