چوری اور منافع خوری کی عادت پڑ جائے تو پھر اس کا کوئی انت نہیں ہوتا۔ یہ سلسلہ جاری رہتا ہے، گھر میں کوئی چوری کرنا شروع کردے تو گھر برباد ہوجاتے ہیں، اور معاشرے اگر چوری کی لت میں پڑ جائیں تو قومیں برباد ہوجاتی ہیں۔ سیلاب کیا آیا، امداد اور امداد جمع کرنے والے، سب ہی نکل آئے، اچھے اور برے، اچھوں کاذکر کم ہوتا ہے، دیر سے ہوتا ہے، تھوڑا تھوڑا ہوتا ہے، لیکن پھولوں کی خوشبوں کی طرح پھیلتا ہے، سارے باغ میں پھیلی خوشبو بتا دیتی ہے کہ خوشبو کہاں سے آرہی ہے، کونسا خوش رنگ پھول ہے، جس سے سار چمن مہک اٹھا ہے۔
الخدمت تو پہلے بھی تھی، برسوں سے ہے، 2005 میں بھی تھی، 2010 میں تھی، جب زلزلہ آیا، تو کیمپ لگائے، امداد دی، میڈیکل کیمپ قائم کیئے، خیمے بستر کھانے، دوائیاں، سب کچھ ہی کیا۔ زلزلے میں جو یتیم ہوئے، انھیں بے سہارا نہ چھوڑا، آغوش جیسا ادارہ بنایا، بچوں کو پڑھایا لکھایا، اب تک یہ کام جاری ہے، پچھلے سیلاب میں بھی خوب امدادی کام کیا، اب بھی کرہے ہیں۔ آئندہ بھی کرتے رہیں گے، یہ لوگ خدمت ہی کے لیے پیدا ہوئے ہیں۔
حکمرانی تو ووٹوں اور نوٹوں سے آتی ہے۔ اس لیے اس کا امکان ذرا کم ہی ہے۔ اس کے لیے یو ٹرن لینے پڑتے ہیں، پہلے جنہیں غدار کہتے تھے، انھی پراعتماد کرنا پڑتا ہے۔ پہلے جن پر ووٹ چوری کا الزام لگاتے تھے، انھی کو ووٹ کا رکھوالا بنانا پڑتا ہے، تھوکا ہوا چاٹنا پڑتا ہے، بوٹ صاف کرنے پڑتے ہیں۔ جن کی ایمپائرینگ پر انگلی اٹھائی جاتی تھی، غدار کہا جاتا تھا، ان کو الیکشن تک رہنے دینے اور مدت ملازمت میں توسیع دینے کی سفارش کی جاتی ہے۔
سیلاب پہاڑوں کے رونے سے آتے ہیں اور بستیاں غرق کرجاتے ہیں۔ کچھ سیلاب بد دیانتی، بدنیتی، چوری، مال مفت سمیٹنے کی ہوس، اپنی زمینوں کو بچانے، دوسروں کو ڈبونے، امداد کے لیے جھولی پھیلانے، امدادی سامان کو ذخیرہ کرنے، مسکین کے ہاتھ جھٹکنے، لوگوں کو در بدر کرنے، ترقیاتی کام نہ کرنے، منصوبہ سازی نہ کرنے سے بھی آتے ہیں۔ ایسے سیاست دان اور حکمران ہمیشہ جھولی پھیلائے رہتے ہیں، ان کے کشکول کا سوراخ، اور پیٹ کا دوزخ کھبی نہیں بھرتا، میرے گھر میں تین افراد ڈینگی کا شکار ہیں۔ بخار کی شدت، درد کی اذیت، اور سب سے بڑھ کر مریض کو دیکھ کر انسان جس اذیت کا شکارہوتا ہے، وہ بھی ایک عذاب ہے۔ ڈینگی کا علاج کیا ہے۔ برداشت، پیناڈول کی گولی، اور انتظار، کہ کب یہ اذیت ناک دن، اختتام پذیر ہوتے ہیں۔ کیسے ظالم لوگ ہیں۔ پیناڈول جیسی عام سے دوا مارکیٹ سے غائب کردی، گودام بھرے ہوئے ہیں، بلیک میں فروخت کرکے مال کمارہے ہیں، اجناس کے ریٹ بڑھا دیئے، خیموں کے ریٹ بڑھا دیئے، چاول، آٹا، سبزیاں سب پر منافع کمارہے ہیں، تجوریاں بھر رہے ہیں، اپنی قبروں میں آگ بھر رہے ہیں اور جہنم میں اپنے حصے کی آگ بھی لے جانے کا سامان کر رہے ہیں۔
سندھ میں بھوک سے بچے مر رہے ہیں، جانوروں کے کھانے کو چارہ نہیں ہے، وہ بھی مر رہے ہیں، بچوں کو دودھ نہیں مل رہا، عورتیں اور بچے بیماریوں کا شکار ہیں، برسوں سے یہاں کبھی مچھر مارنے کا اسپرے نہیں ہوا، کبھی اس کو کام ہی نہیں سمجھا گیا، اس پر توجہ ہی نہیں دی گئی، اب خیال آرہا ہے، اسپرے مشینیں خریدی جارہی ہیں کروڑوں روپے خرچ کرکے سندھ کے 20 اضلاع میں مشینں آئیں گی۔ کراچی بھی ایک ضلع ہے۔ تین کروڑ آبادی کا شہر، جس کے ایک ضلع کے لیے ایک مشین آئے گی۔ جس سے ڈینگی ختم ہوجائے گا۔ جانے کب نو من تیل ہوگا اور رادھا ناچے گی۔ انسان تو ان دھوئیں پھینکنے والی مشینوں کے آنے سے پہلے ہی درگور ہوجائیں گے، علاج کا انتظام کیوں نہیں کرتے، لوگوں میں دوائیاں کیوں نہیں تقسیم کرتے، ڈاکٹر اور اسپتالوں کا بندوبست کیوں نہیں کرتے۔ شائد اس میں کوئی کمائی کا چانس نہیں ہے، کون ہے جو وقت گذرنے کے بعد پوچھے گا، کہ یہ مشینیں کب آئیں، کب کب کہاں کہاں اسپرے ہوا، کتنی دوا خرچ ہوئی، سب کچھ دھوئیں میں اڑ جائے گا، اور ساری رقم بھی۔ جیسے کرونا کے زمانے میں ایکسپو سنیٹر میں ایک نمائشی کیمپ لگا کر اربوں روپے کے اخراجات دکھا دیئے گئے۔ انجکشنوں کا حساب کون دیکھے گا، چین پر یہ آفت آئی تو انھوں نے ایسا عظیم الشان اسپتال رات دن میں بنایا کہ دنیا ششدر رہ گئی، قومیں اپنے روئیے سے پہچانی جاتی ہیں۔ اپنے ویژن سے ان کا نام ہوتا ہے، اور اپنے کام سے وہ دنیا میں قائم و دائم رہتی ہیں، ہمارے پاس نہ منصوبہ ہے، نہ کوئی ویژن، نہ کوئی ادارہ، نہ کوئی لیڈر شپ۔ سب کچھ باتیں ہیں، ہوائی باتیں، ہوائی منصوبے، سب خاک میں، ہوا میں اڑ جائیں گے اور ہم پھر ایک نئے سیلاب، نئے زلزلے، نئی آفت یا کوئی کرائے کی جنگ کا انتظار کررہے ہوں گے کہ کب کوئی ایسا موقع آئے، ہم جھولی پھیلائیں، کشکول اٹھائیں، دنیا کے سامنے ہاتھ پھیلائیں۔