برسات و سیلاب متاثرین کی حقیقی تعداد تو اللہ ہی بہتر جاننے والا ہے لیکن مختلف اعداد و شمار کے مطابق تقریبا 4 کروڑ لوگ برسات و سیلاب سے متاثر ہیں ، امداد کے جو اعداد و شمار سامنے آ رہے ہیں اگر ان اعداد و شمار کو سامنے رکھیں تو ایسا لگتا ہے کہ تمام متاثرین ماشاءاللہ سے لکھ پتی بن چکے ہوں گے ، لیکن اگر زمینی حقائق پر جائیں تو کہانی بالکل الٹ ہے کہ متاثرین کی اپنی زندگی عملی طور پر مفلوج ہو چکی ہے ، ایک ہی وقت میں متاثرین کئی مسائل سے ایک ساتھ نمٹ رہے ہیں۔
متاثرین کا سب سے پہلا مسئلہ تھا پانی کا خروج ، عمومی طور پر لوگ بھی یہی سوچ رہے ہیں کہ جہاں سے پانی نکل گیا وہاں اب متاثرین نہیں رہے ، یہ حقیقت ہے کہ گھروں گلیوں اور سڑکوں سے 80 فیصد پانی نکل چکا ہے لیکن 50 فیصد زمینوں پر پانی اب بھی موجود ہے ، زمینوں پر پانی ہونے کی وجہ سے جانوروں کے گھاس کا مسئلہ بنا پڑا ہے ، گھاس کی کمی کی وجہ سے دودھ کی قلت پیدا ہو رہی ہے اور اس وقت دودھ کی قیمت آسمان سے باتیں کر رہی ہے ، ہر متاثر کے گھر میں بھینس نہیں ہے ، متاثر اپنے یا اپنے بچوں کے لئے دودھ خرید لے اس کے لئے اس کے پاس پیسے نہیں ہیں ، سبزیاں زمین میں لگی تھیں ، زمین میں پانی آ گیا ، اس لئے سبزیوں کی قیمت آسمان پر چلی گئی ، ساتھ ساتھ کئی پولٹری فارم میں موجود تیار لاکھوں کی تعداد میں مرغیاں مر گئیں اس وجہ سے مرغی کا گوشت بھی مہنگا ہوگیا اور انڈوں کی قیمت بھی نیچے نہیں آ رہی۔
متاثرین کی قوت خرید زیرو ہو چکی وہ کہاں جائیں ، قوت خرید ختم ہونے کی وجہ یہ ہے کہ دیہات میں رہنے والے عمومی طور پر زمین پر مزدوری کرتے ہیں لیکن زمینوں میں پانی ہونے کی وجہ سے انہیں مزدوری نہیں مل رہی تو اپنے بچوں کا پیٹ کیسے پالیں ، ایک اور مسئلہ یہ ہے کہ زمینوں پر پانی کھڑا ہے ، پانی میں مچھروں کی پیدائش بہت زیادہ ہوتی ہے ، اس لئے شام 5 بجے سے ہی مچھر انسانوں اور جانوروں کی مرمت شروع کر دیتے ہیں ، مچھروں کی مرمت کی وجہ سے جانور اور انسان دونوں میں بیماریاں پھیل رہی ہیں ، متعدد جانور مر چکے ہیں ، جو زندہ جانور کھڑے ہیں انہیں پالنا اور سنبھالنا محال ہوا پڑا ہے ، لیکن عمومی طور پر جو لوگ متاثرین سے تعاون کے لئے آتے ہیں ان کے ذہن میں میرٹ پانی ہے ، یعنی جہاں پانی کھڑا ہے وہ متاثر ہے اور جہاں پانی نہیں ہے وہ متاثر نہیں ہے ، میرے مشاہدے کے مطابق یہ میرٹ درست نہیں ، جہاں پانی کھڑا ہے یا جہاں پانی کھڑا تھا اس سے اس علاقے کے مکینوں پر کتنا اثر پڑا ان کی زندگی کتنی متاثر ہوئی یہ حساب لگا کر امداد کرنی چاہئیے ، بہت سے لوگ ایسے ہیں جن کی کل کائنات ان کا کچا کمرہ تھا ، پانی تو ادھر ادھر نکل گیا مگر کچا کمرہ گر گیا ، اب کچے کمرے کی تعمیر کے لئے 20 سے 30 ہزار کی رقم درکار ہے جو کہ اس مزدور کے پاس موجود نہیں ، وہ بیچارہ کہاں جائے ، کئی مکین ملبے کے ڈھیر پر اپنا سامان رکھ کر اس آس پر بیٹھے ہیں کہ کوئی صورت تعمیر کی بن جائے تو ہم اپنی زندگی کو پھر سے شروع کریں۔
دیہاتوں کے ساتھ شہر کے مضافات کی بھی یہی صورتحال ہے اکثر مضافات میں دیہاڑی دار لوگ رہتے ہیں ، برسات نے ان کی زندگی کو بھی مفلوج کر دیا ہے ، اپنے مضافاتی علاقوں کو بھی سنبھالنا ہوگا ، قصہ مختصر یہ ہے کہ ہمیں متاثرین کی بحالی کے لئے بہت سنجیدگی سے سوچنا ہوگا ، مختلف کیٹیگریز بنانا ہوں گی ، پکے پکائے کھانے کی اس وقت ضرورت تھی جب دیہات میں لکڑیاں گیلی تھیں ، اب پکے پکائے کھانے کے بجائے راشن گھروں میں دیا جائے ، اس کے ساتھ گھر کے افراد دیکھ کر کچھ نہ کچھ نقدی بھی دی جائے ، حکومت نے 8171 پر فری میسیج سروس رکھی ہے ، مستحقین کو 25 ہزار روپے کی امداد ملے گی ، ہر ممکن کوشش کی جائے کہ ہر مستحق کا شناختی کارڈ نمبر 8171 پر بھیجا جائے تاکہ وہ رجسٹرڈ ہوجائے اور وقت آنے پر اسے 25 ہزار کی امداد مل جائے ، جن کے گھر گر گئے صاحب ثروت لوگ آگے بڑھیں ، ان کے گھر اس قابل کروا دیں کہ وہ اپنے گھروں میں رہ سکیں ، ڈپٹی کمشنرز کا کہنا ہے کہ ہم نے امداد مستحق داروں کو دے دی ہے وہ سروے کے بعد امداد دیں گے ، سرکاری امداد کے آسرے پر بیٹھا نہ جائے لیکن سرکاری امداد کے لئے کوشش کو ترک بھی نہ کیا جائے۔
اگر کہیں پتہ چلے کہ کسی فلاحی ادارے کے رکن ، کسی سیاسی بااثر شخصیت یا کسی وڈیرے نے امداد مستحقین کے بجائے اپنے گھر میں رکھ لی ہے تو بلاتفریق اسے ایکسپوز کیا جائے ، فقط فوٹو سیشن نہ ہوں جی اور جان سے متاثرین کی بحالی کی کوشش کی جائیں ، مچھروں سے بچاؤ کے لئے متاثرین کو مچھر دانیاں دی جائیں ، جگہ جگہ میڈیکل کیمپ لگائے جائیں ، متاثرین کو خارش ، الرجی ، پھوڑے پھنسی ، بخار اور کھانسی کی بیماریوں نے اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے ، ساری ساری فیملیز بیمار ہیں ، سب کو ڈاکٹرز کے پاس ایک ساتھ لے جانا ممکن نہیں ، اس لئے جگہ جگہ میڈیکل کیمپ لگا کر متاثرین کے زخموں پر کچھ نہ کچھ مرہم رکھا جاسکتا ہے ، دینی طبقہ اس وقت امدادی سرگرمیوں میں مصروف ہے ، خود دینی طبقے کے اپنے بہت سے مسائل ہیں ، مساجد مدارس کو بھی بارش میں نقصان پہنچا ہے ، اسی طرح متاثرہ علاقوں میں مساجد مدارس کی فنڈنگ بھی بری طرح متاثر ہوئی ہے لہذا متاثرہ علاقوں میں مساجد مدارس کے نظم کو چلانا بھی ایک مسئلہ بنتا جارہا ہے۔
اب سوال یہ ہے کہ امداد کب تک اور کیسے کی جائے، تو اس کا جواب ہے کم از کم 3 ماہ تک متاثرین کے گھروں کی دیکھ بھال کرنا ہوگی ، سرکاری سطح پر تو کونسلر حضرات کو یہ ذمہ داری اٹھانی چاہیے کہ ان کے وارڈ میں کوئی متاثر امداد سے محروم نہ رہے ، اسی طرح دینی اعتبار سے ائمہ مساجد و دینی کارکنان کو ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھنے کے بجائے اپنے حلقہ احباب کی داد رسی کے لئے میدان میں نکلنا چاہیے ، ائمہ مساجد اور دینی کارکنان کو پوری کوشش کرنی چاہئیے کہ ان کے حلقہ احباب اور علاقے میں کوئی مستحق بھوکا نہ سوئے ، کسی کی دیوار گری نہ رہے ، کسی کا بچہ دودھ کے لئے نہ بلبلائے ، کسی کے بچے کا نام اسکول کی فیس کی وجہ سے اسکول سے خارج نہ ہو ، کس کے پاس پہننے کو کپڑے ہیں اور کس کے گھر میں برتن بھی نہیں ، سب خبر گیری رکھنی ہوگی ، کس کی ایک دن مدد کرنی ہے ، کس کی ایک ہفتہ ، کس کی ایک ماہ ، کسی کی 3 مہینے اور کس کی 3 مہینے کے بعد بھی ، یہ پیپر ورک تیار کرنا پڑے گا ۔