اللہ ہی کی شان ہے کہ واقعی سب ہی موسم ہماری دسترس میں ہیں اگرچہ اللہ تعالیٰ نے موسموں کی اقسام اپنی مخلوق کی بھلائی کیلئے ہی رکھی ہیں۔ گرمی سردی خزاں بہار ان سے تو سب ہی واقف ہیں مگر اس کے علاوہ بھی ہمیں کئی موسموں کا واسطہ پڑتا رہتا ہے۔ کبھی شادیوں کا موسم تو کبھی برسات کا موسم، ویسے کتنے کمال کی بات ہے کہ اس دنیا میں اس لمحے بھی تمام موسم موجود ہیں کہیں گرمیاں ہیں تو کہیں سردیاں تو کہیں موسم خزاں شروع ہورہا ہے تو کہیں موسم بہار اپنا حسین منظر پیش کر رہا ہے۔
دنیا کے مختلف علاقے اور وہاں کے لوگ مختلف طرح کے ان ہی موسموں کی لپیٹ میں ہیں اور تو اور ان موسموں کے اندر مزید ذیلی موسم بھی آجاتے ہیں جیسے آم آئے تو مکھیوں کا موسم یا کہیں مچھروں کا موسم گویا بیماریوں کے موسم بھی ان ہی سے منسوب کیے جاتے ہیں۔ مگر پھر بھی سبحان اللہ! ہر موسم کی اپنی ایک لذت ہے گرمیوں میں لسی اورمشروبات کا ذائقہ ہی اور ہوتا ہے، تو سردیاں سوپ مختلف اقسام کی چائے، کافی، کستوری دودھ، ہریرہ اور نہ جانے کیا کیا سوغات پھل میوہ جات قدرت اپنی مخلوق کیلئے پہلے ہی سے دستر خوان کی طرح سجاکے رکھتی ہے۔ کتنا شکر گزار ہونا چاہئے اس خلیفۃ الارض کو کہ رب نے بے شمار طر ح طرح کی نعمتیں عطا کرکے ان سے نہال ہی کر رکھا ہے۔ ہم ہی میں شکر اور قدردانی کی کمی ہے۔
شکر اس پاک ذات کا کہ وہ قحط اور خشک سالی جیسے موسموں سے ہمیں کتنا ہی دور رکھتا ہے ورنہ اس رب کی پاور سپر ہی ہے۔ بندہ بے بس اسکے گمان میں بھی اسکی قوت نہیں آسکتی! ذرا بارش بڑھ جائے تو تنکوں کی طرح مکان دکان انسان مویشی تباہ ہو جاتے ہیں۔ ذراہوائیں تیز کر دے تو اس کے زور سے کوئی چیز بچ نہیں سکتی۔ قرآنی قصے ہمیں تفریح کیلئے نہیں پڑھنے بلکہ عبرت و آگاہی کے لیے سمجھنے ہیں اور آدمی نہیں انسان بن کر رہنے اور مہذب زندگی گزارنے کے گُر سکھاتی ہے۔ جو قدرت اتنی مہربان ہے کہ ہمیں ایمان صحت طاقت علم روزی روزگار، رشتے ناطے جیسی نعمتیں دے کر حدود میں رہنے کا حکم صادر کرتی ہے اس کی نافرمانی کیا اچھی بات ہے؟۔
واقعی تبدیلی تو اللہ کی طرف سے ہے میں نے کہیں پڑھا تھا کہ ہر چیزفنا ہونی ہے! جو ہوا اچھا ہوا، جوہو رہا ہے اچھا ہو رہا ہے، جو ہوگا اچھا ہوگا۔ تمہارا کیا ہے تمہارا کیا گیا؟ جو تم روتے ہو؟ تم کیا لائے تھے جو تم نے کھویا ہے؟ تم نے کیا پیدا کیا جو ختم ہو گیا! تم نے تو جولیا یہیں سے لیا! جو دیا یہیں پر دیا! جو آج تمھارا ہے کل کسی اورکا تھا اور کل کسی اور کا ہو جائے گا۔ گویا ہمیں اس فانی دنیا کیلئے متاعِ غرور کیلئے زیادہ ہلکان ہونے کی ضرورت نہیں۔ قدرتی آفات سے اللہ تعالیٰ ہمیں پناہ میں رکھے لیکن اصل آزمائش امتحان پرہی ہوتی ہے کیسے لمحوں میں جانی مالی نقصان اور نا قابل برداشت حالات سر سے گزر جاتے ہیں لیکن سبق یہی دے جاتے ہیں کہ ہم کہاں کھوئے ہوئے ہیں زندگی کے مقصد سے دور مست ملنگ بنے۔ زندگی کتنی مختصر ہے کسی کو خبر نہیں ۔
بس اسی زندگی میں رب چاہی کرنی ہے من چاہی اور من مانی تو ہمیں لے ڈوبے گی، قوموں کی زندگی میں جب ایسے سخت حالات آجائیں تو آزمائش سب کی ہوتی ہے۔ کون کسی کے کتنے کام آتا ہے؟ کیا کرتا ہے؟ خدا خوفی اور رب کی مخلوق سے محبت کا ثبوت دیتا ہے کہ نہیں؟ اپنی حیثیت سے قربانی پیش کرتا ہے کہ نہیں؟ ۔