اللہ تعالی نے اپنے محبوب حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو دوسرے انبیاء سے الگ تھلگ جن خصائص سے نوازا ہے ان میں سے ایک خصوصیت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کا خاتم النبیین ہوناہے، حضرت محمد صلی اللہ علیہ وسلم کو آخری نبی ماننا اسلام کی اساس ہے اور بلاشبہ اس پر اسلام کی عمارت کھڑی ہے. رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کے ظاہری دنیا سے پردہ فرما جانے کے بعد بہت سے کذاب پیدا ہوئے جنہوں نے نبوت کا دعوی کیا، تاریخ گواہ ہے کہ حضرت ابوبکر صدیق رضی اللہ عنہ نے جنگ یمامہ میں تمام صحابہ اکرام رضوان اللہ اجمعین کو جانے کا حکم دیا اور اس جنگ میں کثیر تعداد میں قراء و حُفاظ صحابہ اکرام شہید ہوئے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کی ختم نبوت پر پہرا دینا ہر مسلمان کی اولین ترجیح ہے کیوں کہ دین مصطفی صلی اللہ علیہ وسلم کو اللہ نے اپنا پسندیدہ دین قرار دیا ہے۔ رب کریم کا قرآن الحکیم میں ارشاد یے “بے شک اللہ کے نزدیک (معتبر)دین اسلام ہے”۔ چنانچہ اس دین کو اللہ نے اپنے پیارے نبی صلی اللہ علیہ وسلم کی زندگی میں مکمل کر دیا، فرمان باری تعالی ہے “آج کے دن ہم نے تمہارے لئے دین کو مکمل کر دیا اور تم پر اپنی نعمت تمام کر دی اور تمہارے لئے اسلام کو بطور دین پسند کر لیا”۔ اس آیت کریمہ سے معلوم ہوا کہ اللہ نے اب دین محمدی کو مکمل کر دیا ہے لہذا اب کسی نبی کی ہرگز گنجائش موجود نہیں، اس بات کو اللہ کریم نے سورہ احزاب میں صراحتاً ارشاد فرمایا ہے کہ “محمد (صلی اللہ علیہ وسلم) تم مردوں میں سے کسی کے باپ نہیں، لیکن وہ اللہ کے رسول اور آخری نبی ہیں”۔ رسول اللہ نے بھی اس بات کو اس طرح ارشاد فرمایا “انا نبی لا نبی بعدی”۔
مرزا غلام احمد قادیانی نامی ملعون نے نبوت کا دعوی کیا تو تب برصغیر پر انگریز کی حکومت تھی لہذا اس فتنے کو مسلمانوں کے جذبات مجروح کرنے اور جذبہ جہاد کو ختم کرنے کے لئے گورا سرکار کی طرف سے استعمال کیا گیا۔ اس دور کے علماء اکرام نے مرزا قادیانی کو کافر قرار دے کر واجب القتل کا فتوی صادر فرمایا، قیام پاکستان کے بعد بھی اس فتنہ نے اپنی جڑیں مضبوط کرنا جاری رکھیں اور سر ظفراللہ سمیت کئی قادیانیوں کو قلیدی عہدوں پر فائز کر دیا گیا، جس پر اسلام پسندوں کی طرف سے احتجاج کیا گیا تو ریاست نے طاقت کا استعمال کرتے ہوئے 10 ہزار کے قریب عوام الناس کو شہید کر دیا اور سیکڑوں علماء پابند سلاسل ٹھہرے۔ لہذا تحریک ختم نبوت کی جو چنگاری جلی تھی وہ مسلمانوں کے دلوں میں سُلگتی رہی باآخر 7 ستمبر 1974 کا وہ تاریخ ساز دن آیا جب قادیانیوں اور ان کے تمام ذیلی گروہوں کو آئین میں ترمیم کر کے کافر قرار دے دیا گیا۔ اس قرار داد کو پیش کرنے کا سہرا فاتح قادیانیت محافظِ ختم نبوت مولانا شاہ احمد نورانی کے سر ہے۔
اس قانون سازی کا پس منظر بہت رنگین ہے ہزاروں لوگوں کی قربانیوں کے باعث یہ ممکن ہو سکا، نشتر میڈیکل کالج کے طلباء جب سیروتفریح کی غرض سے پشاور جا رہے تھے جب ٹرین ربوہ پہنچی تو قادیانیوں نے حسب معمول اپنا قادیانیت پر مبنی لٹریچر تقسیم کیا جس پر طلباء نے قادیانیت مردہ باد کے نعرے لگائے اور طلباء مشتعل ہوگئے۔ 29 مئی کو جب وہی گروپ واپس سیروتفریح کے بعد ربوہ پہنچا تو قادیانی غنڈوں نے حملہ کر دیا. بہت بے دردی سے طلباء کو مارا پیٹا گیا اور ان کی تمام رقوم اور سامان چوری کر لیا گیا۔ 9 جون 1974 کو اس بابت مجلس ختم نبوت کا اجلاس ہوا جس میں ربوہ واقع کے بعد قادیانیت کے خلاف بھرپور تحریک چلانے کا اعلان کیا گیا، ختم نبوت کے تحفظ کے لئے چونکہ تمام مکاتب فکر متحد تھے لہذا یہ تحریک پورے ملک میں پھیل گئی۔ حکومت وقت نے طاقت سے اس تحریک کو دبانے کی کوشش کی مگر ناکام رہے۔
قومی اسمبلی میں اس واقع اور قادیانیت کے بارے قرارداد پیش ہونے کے بعد دو ماہ کے عرصہ تک ارکان میں ابحاث چلتی رہیں۔ بالآخر مرزا ناصر ملعون کو اپنا موقف پیش کرنے اور علماء جو اس وقت اسمبلی کا حصہ تھے ان کے اس ملعون کو منہ توڑ جواب دینے کے بعد 7 ستمبر کو 4 بج کر 35 منٹ پر پاکستان کی اسمبلی نے قادیانی اور دیگر منکرین ختم نبوت کو کافر قراد دیتے ہوئے ختم نبوت کا قانون منظور کر لیا، اس قانون کے باوجود بھی قادیانیوں کی ہرزہ سرائی جاری رہی اور وہ ختم نبوت کے مجاہدیں کو اغواء کرنے لگے۔ 26 اپریل 1984 کو امتناع قادیانیت آرڈیننس جاری ہوا. اس کے مطابق قادیانی اور ان کے تمام ذیلی گروہ خود کو مسلمان ظاہر نہیں کر سکتے، ان کے آذان دینے، اپنی عبادت گاہوں کو مسجد کہنے اور قربانی جیسے تمام شعائر اسلام کو استعمال کرنے پر پابندی یے، قادیانی ہر دور میں ان تمام قوانین کو ختم کرنے کی ہر ممکن کوشش جاری رکھتے ہیں۔
قادیانی اپنے گندے مذہب کی تبلیغ کے لئے نہ صرف مسلمانوں کو بہلاتے پھسلاتے بلکہ غریب مسلمانوں کو علاج معالجے اور امداد کے جھانسے میں قادیانی بنانے میں مصروف عمل ہیں، ختم نبوت کے قانون میں ترمیم اور اس کو ختم کرنے کے ہر وقت درپہ رہتے ہیں، مسلمانوں کو چاہئیے کہ جہاں بھی قادیانی اس ناسور کو پھیلاتے نظر آئیں ان کا تعاقب کیا جائے، قانونی چارہ جوئی کر کے ان کفار کو کیفر کردار تک پہنچایا جائے تا کہ ہماری آنے والی نسلیں بھی ہمیں سنہرے الفاظ میں یاد رکھ سکیں۔