سیلاب کا آنا، ڈیم کا نہ بننا، ان گنت زندگیوں کا بے مول بہہ جانا۔ سانحہ ہے، قیامت ہے، انکے لیے جو احساس کرتے ہیں، انسانیت کے سوز میں اپنا حصہ رکھتے ہیں، اپنے قیمتی وقت کو خدمت، ایثار اور قربانی کے جذبے میں کیش کراکر عیش کی زندگی کو الوداع کردیتے ہیں۔
جان، مال سے لے کر پوری زندگی امانت سمجھتے ہیں، الخدمت فاؤنڈیشن کی فورس وہ نام جو ایشیا میں ساتویں نمبر پر نشانہ جرات لے کر آشکار ہوئی۔
زندگی کی تلخی جب اور تلخ ہوئی تو جگہ جگہ ان دیوانوں، وطن کے رکھوالوں نے اپنا وقت جان سب کچھ پیش کردیا۔
ٹائیگر فورس کا نعرہ لگاکر قوم کی مصیبت کے وقت بے دخل نہیں ہوتے، زندگی کی سسکتی سانسوں کو دل و جان سے اپنے اخلاق کی پناہ گاہ دیتے نہیں تھکتے۔
کون ان سے پوچھے گا کہ اتنی محنت کس کے لیے کرتے ہیں۔
ووٹ کے لیے؟
ڈیم کے بننے کا سوال تو اپنی جگہ اس وقت سے ہی کھڑا ہے، جب اسکے لیے ریاست مدینہ کا اعلان کرنے والے نے پیسے جمع کرکے کسی خوابی جزیرے کی سرابی زمینوں میں دفن کردیئے، خواب دکھاکر یہ پروانے جانے کہاں کھوگئے، شاید جلسوں میں آکر انہوں نے بھڑکیاں مار لینے کو ہی قوم کی خدمت سمجھا۔
3 کروڑ کے سیلاب زدگان کے توسط سے قوم کی امداد کے نام پر 500 کروڑ جمع کرنے والے ٹیلی تھونک سلسلے جسکے سدباب کیا ہونگے۔
جنکے ایم این ایز ایم پی ایز مشکل کے وقت غائب ہوتے ہیں۔
الخدمت کی زمینی ریسکیو ہر لمحے کی زخمی ساعت اپنی پناہ میں رکھتی ہے،قرضے لینے کے نام پر بیورو کریٹس سے لےکر سارے وفاقی اور صوبائی ضمیر جو سوئے پڑے تھے، اچانک جاگ جاتے ہیں۔
بٹورے ہونگے، امداد کے نام پر لاٹری نکلے گی، کس کھاتے میں کونسی رقم جائے گی، اسکے لیے عدالت ہوگی نہ جج۔
ادھر نہتے عوام معاشی طور پر جو احساس محرومی کا شکار ہیں، سیلاب زدگان کے جمع شدہ صدقات پر ٹوٹ پڑتے ہیں، جنکے اپنے پاس بھی اس جرم کے سرزد کرنے کی سعی کے سوا کچھ نہیں۔
ہم یہ سمجھ بیٹھے کہ ملک آزاد ہوگیا ہے جبکہ آزادی اور ذہنی غلامی کی داستان نے اسکو خیرات کے نام پر، روحانی طور پر پھر سے زخمی کردیا، وہ تو آزادی کے نام پر کیش ہی ہوگیا، بیوروکریٹ جرنیلوں اور جابر حکمرانوں کے ہاتھوں۔
کوہستان پر ڈوب جانے والے بے مول ہیں کہ انکی مائیں وطن کی بیٹیاں ہیں، وہ ریاست کے ہونہار نہیں ہیں اسلیے انکی سزا ہے کہ وہ ڈوب کر اپنی جان دے دیں ادھر علیمہ خان کیونکہ وہ نیازی کی بہن ہیں، سیلاب میں پھنستی ہیں، جنکے لیے ہیلی کاپٹر کی فلائی سروس فورا طلب کرلی جاتی ہے، جائیداد کی لمبی قطاریں، 3 گھر 11 زمینیں کئی ارب جنکا شمار نہیں، نیازی کی اہلیہ کے پاس جائیدادوں کے الگ سلسلے ہوتے ہیں، لیکن پھر بھی سیلاب کے لیے فنڈ ایک ٹیلی تھون سے حاصل کرلیتے ہیں، جسکی پریم کہانی بھی خبر دینے والوں نے ہی لکھی ہے، کوئی تحریری کارروائی ہے، اس جمع شدہ فنڈ کا مستقبل کیا ہوگا؟
سیلاب کے نام پر جمع ہونے والی امداد میں یو اے ای سے، نیز 15 جہاز یو اے ای سے 15 لاکھ پاؤنڈ یو کے سے لینے والی حکومت کے پاس سیلاب زدگان کی زندگیوں کی کوئی ضمانت ہے؟ کیا یہ ڈیم بنانا ان فنڈ سے زیادہ مہنگا ہے؟
3سال اور 8 ماہ میں پاکستان کی تاریخ نے سب سے بڑا قرض اپنی روح پر لکھا، ایک سڑک بنانے کے لیے توشہ خانے کے تحائف بیچ ڈالے،
ملک کے لیے جان نثار بن جانے والا IMF سے قرضے لے کر اسکو مقروض کرکے ٹیلی تھون کے ذریتےملینز لینے والا مستقبل بنانے کے لیے ہیلی کاپٹر پر بیٹھ کر اپنی محبت کا یقین دلاتا ہے۔
قوم کے محافظوں کو پہچاننے میں پھر اتنی بڑی غلطی کرنے والے عوام الناس کو بالآخر جاگ جانے کی ضرورت ہے۔
وگرنہ مدھم مدھم جلتی یہ کرنیں بھی بجھ گئیں، تو خسارے ہی خسارے ہونگے۔