فرمانروائے بحرِ عرب، پاک بحریہ
بھارت میں تیرا نام ہے بے باک بحریہ
پاکستان کو اللہ تعالیٰ نے بہت سی نعمتوں سے نواز رکھا ہے۔ اسی میں ایک بہترین نعمت اسکی جغرافیائی پوزیشن ہے۔ جب نعمت ملتی ہے تو حاسدین بھی پیدا ہو جاتے ہیں۔ آزادی کے ساتھ ہی پاکستان کو ایک چالاک و عیار دشمن سے پالا پڑا۔ کسی بھی ملک کی ترقی اور خوشحالی اس کے امن اور معیشت کے مرہون منت ہوا کرتی ہے،اور ایک ملک کو پر امن رکھنے کے لئے اس ملک کی افواج انتہائی ضروری ہیں۔ افواج پاکستان ہمارے ملک کا فخر ہیں ، ان ہی کی بدولت ہم اپنے گھروں میں کرسکوں سو سکتے ہیں۔ یہی افواج پاکستان پاکستان کی جغرافیائی سرحدوں کی حفاظت اور دفاع کو مضبوط کرتی ہیں۔ اس بات کا ادراک بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کو بخوبی تھا اس لئے بڑی اور فضائی فوج کے ساتھ ملک کی بحری حدود، ساحلی اور سمندری مفادات کی حفاظت کے پاک بحریہ کا قیام 15 اگست 1947ءکو عمل میں لایا گیا۔ اپنے محدود وسائل کے باوجود پاک بحریہ نے قائد اعظم کے وژن کے مطابق آگے بڑھنے کی کوشش کی۔اور آج بحرِ ہند اور ایشائی علاقے میں ہونے والی تبدیلیوں کے وسیع تناظر میں پاک بحریہ کی اہمیت اور اس کا کردار روز روشن کی طرح عیاں ہے ۔ ملک کے طول وعرض میں ہر سال 8ستمبر کو یوم بحریہ منایا جاتا ہے یہ دن یاد دلاتا ہے کہ محدود وسائل کے باوجود ہماری بحریہ نے کس طرح دشمن کے مذموم مقاصد کو بحیرہ عرب میں غرق کر دیا۔ 1965 میں جب عیار دشمن نے رات کی تاریکی میں مادر وطن پر حملہ کیا تو جنگ زیادہ تر زمینی اور فضائی ہی رہی مگر پاک بحریہ مکمل طور پر چوکس اور ہوشیار تھی۔ بھارت کراچی کی طرف بڑھنے کے ناپاک ارادے رکھتا تھا۔ طیارہ بردار جہاز نہ ہونے کے باوجود پاک بحریہ نے اس جنگ میں بہادری اور پیشہ ورانہ مہارت کی ایسی تاریخ رقم کی جس پر آج بھی دشمن انگشت بدنداں ہے۔ اپنے سے کئی گنا بڑے اور مضبوط دشمن کی راتوں کی نیندیں اور دن کا چین اڑانے والی پاک بحریہ ہی تھی۔ پاکستان کے پاس صرف ایک آبدوز “غازی” تھی. مگر غازی نے ہندوستانی بحری بیڑے جس میں ان کا عظیم و شان طیارہ بردار جہاز وکرانت بھی شامل تھا کو اپنی ہی بندرگارہ پر محصور کر دیا۔ نہ صرف اسے عالمی سمندر کا رخ نہیں کرنے دیا بلکہ غازی کے خوف سے شمالی بحیرہ عرب کا بھی رخ نہ کر سکے۔
7 اور 8 ستمبر 1965 کی شب پاک بحریہ کے صرف سات جنگی جہازوں پر مشتمل بحری بیڑے نے ” آپریشن سومنات” کے دوران بھارت کی بندرگاہ دوارکا کو مفلوج کر دیا۔ پاک بحریہ کے یہ ساتوں جنگی بحری جہاز 6 ستمبر کو اپنے مشن پر روانہ ہوئے۔ جبکہ پاکستانی آبدوز “غازی” کو ممبئی کے پانیوں میں بھیجا گیا تاکہ حملے کے ردِ عمل کے نتیجے میں نکلنے والے بڑے بھارتی جنگی جہازوں کو وہیں نشانہ بنایا جا سکے ۔دوران آپریشن ہر قسم کے مواصلاتی رابطے مکمل طور پر منقطع کر لئے گئے صرف سمتوں کے ذریعے جہاز آگے بڑھتے رہے۔رات گیارہ بجے کے قریب بھارتی بحریہ کے جنگی جہاز آئی این ایس تلوار کی سمندر میں موجودگی کی نشاندہی کی گئی۔ مگر پاک بحریہ کے جہازوں کی ہیبت و دہشت نے اُسے بھاگنے پہ مجبور کردیا۔12 بجے تمام جہاز دوارکا کے ساحل کے اتنے قریب پہنچ گئے کہ پورا شہر ان کی توپوں کی زد میں تھا۔ یہ آپریشن آدھے گھنٹے میں مکمل کرنا تھا۔ ہر جہاز نے 50 گولے فائر کرنے تھے۔ 12:26 پر فائر کا حکم ملا پے در پے گولوں سے دوارکا کو نشانہ بنایا۔ اس کے بعد پاک بحریہ کے تمام جہاز کامیاب لوٹ آئے۔البتہ آبدوز غازی 23 ستمبر تک اپنے مشن پر رہی اور پھر واپس کراچی آ گئی۔ اس مستعد اورزیرک آپریشن نے اہم ساحلی تنصیبات بشمول بھارتی ریڈار اسٹیشن اور ریڈیو بیکن کو تباہ کیا جو کہ کراچی پر حملہ کے لیے بھارتی فضائیہ کے جہازوں کو رہنمائی فراہم کر رہا تھا۔ ساتھ ہی ساتھ وہ ہوائی اڈہ بھی تباہ ہو گیا۔ دوارکا آپریشن آج بھی ہندوستانی بحریہ کا ڈراؤنا خواب ہے۔
بحرِ عرب کو تیرے سفینوں پہ ناز ہے
عظمت کے پُر جلال امینوں پہ ناز ہے
تیرے شناوروں کی جبینوں پہ ناز ہے
تو نے جہاز، نخوتِ باطل ڈبو دیا
1965کی جنگ کے بعد پاک بحریہ نے 1971 میں بھارتی بحریہ کی پیشقدمی روک کر انھیں پسپائی پر مجبور کردیا۔ پاک بحریہ نے شمالی بحیرہ عرب میں ایک مرتبہ پھر اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوایا جو دفاعی تاریخ کا اہم حصہ ہے۔ اس مشن میں پاک بحریہ کی سب میرین فورس میں شامل فرانس کی تیار کردہ ڈیفنی کلاس آبدوز ’’ہنگور‘‘ کے ذریعے پاک بحریہ کے جوانوں نے اپنے جوہر دکھائے اور اپنا مشن مکمل کر کے بحفاظت کراچی لوٹ آئی۔
پاک بحریہ گزشتہ 75 برس کے لمبے سفر کے بعد اب ایک ایسے مقام پر پہنچنے میں کامیاب ہو چکی ہے جہاں وہ نہ صرف اپنے ملک کا دفاع کرنے کے بہترین صلاحیت رکھتی ہے، بلکہ بحرِہند کے دیگر ممالک کے ساتھ مل کر علاقائی سلامتی، بحری اسمگلنگ، تجارتی رہداریوں کا تحفظ، بحری دہشت گردی اوربحری قزاقی جیسے چیلنجز کا مقابلہ کرنے کی بھی بھرپور صلاحیت حاصل کر چکی ہے۔