دختران او بزلف دل باختہ
شوخ چشم و خود نما و خردہ گیر
ساختہ ، پر داختہ ، دل باختہ
ابروں مثل دو تیغ آختہ
ساعد سمین شاں عیش نظر
سینہ ماہی بموج اندر نگر
(پس چہ باید کرد )
اس قوم کی بیٹیاں اپنی زلفوں کی اسیر ہوتی ہیں۔ ننگے سر گھومتی پھرتی ہیں۔ مغربی تہذیب کی نقال، اپنی حیا آفرین تہذیب سے نا آشنا بھی ہیں اور بیزار بھی ہیں۔ عریاں نگاہیں، خودنمائی اور خوردہ گیری چھوٹی چھوٹی باتوں پر الجھنا اور بحث کرنا ان کا محبوب مشغلہ ہے۔ بنی بنائی سجی سجائی دل ہاری ہوئی ان کی بھویں دو تلواروں کی طرح کھینچی ہوتی ہیں۔ ان کی چاند کی سی کلائی نظر بازوں کی دلکشی کا سامان بنی ہوتی ہے گویا موج آب میں مچھلی کا سینہ نمودار ہے۔
مندرجہ بالا اشعار میں علامہ اقبال نے حکمت فرعونی کا نقشہ نہایت کامیابی کے ساتھ کھینچا ہے حکمت فرعونی سے مراد وہ حکمت ہے جو خالق و مالک حاکم رازق اللہ کی حاکمیت کے انکار اور بغاوت پر مبنی ہو ۔ جو انسانی ذہن سوچ اور خواہشات نفسانی کی بنیاد پر تعمیر ہو رہی ہو۔ حکمت فرعونی کے نزدیک عورت ذات ایک کھلونا ہے۔ اس کی عریانی بےحیائی اس کی عزت اور عصمت کی بے حرمتی اس نظام کے علمبرداروں کے نزدیک ترقی اور آزادی نسواں ہے۔
اور یہی کچھ آج ہمارے معاشرے میں ہو رہا ہے۔ ہمارے نوجوانوں کو مادر پدر آزادی کی ترغیب دی جارہی ہے۔ ہمیں بتایا جا رہا ہے کہ انسانی سماج کی بنیاد خاندان کا کوئی تصور نہیں ہے۔ مسلمانوں کے خاندانی نظام اور پاکیزہ اقدار کو ہدف بنا کر یہ پروپیگنڈہ کیا جا رہا ہے کہ مسلمان اپنی خواتین پر ظلم کرتے ہیں۔ انہیں حجاب اور پردے کے ذریعے پابند مجبور کرتے ہیں۔ دوسری طرف مسلم خواتین کو حجاب اور پردے جو ان کے نزدیک پابندی ہے اس کو توڑ کر حسین آزادی کے خواب دکھائے جا رہے ہیں۔ اپنی خوبصورتی کو عیاں کرنے کو آزادی اور وومن امپاورمنٹ کا نام دیا جا رہا ہے ان کو بتایا جا رہا ہے کہ جب تک وہ پردے کی قید سے آزاد نہیں ہونگی، جب تک مردوں کے شانہ بشانہ کام نہیں کریں گی تب تک ترقی نہیں کر سکیں گیں۔ اگر وہ نت نئے فیشن کو نہیں اپنائیں گی تو دنیا کی تمام عورتوں سے پیچھے رہ جائیں گی۔ ایک طرف جہاں مسلم معاشرے کی ایک عورت کو حجاب کی وجہ سے پسماندہ اور فرسودہ قرار دیا جارہا ہے تو دوسری جانب مغربی معاشرے میں حجاب کو انتہا پسندی تعصب دہشتگردی سے جوڑا جا رہا ہے۔ حجاب کو جارحیت اور بنیاد پرستی سے جوڑ کر عورتوں پر تعلیمی اداروں اور ملازمتوں کے دروازے بندکردئیے جاتے ہیں۔ تعلیمی اداروں میں با حجاب طالبات کی نہ صرف تضحیک کی جاتی ہے بلکہ انکے اسكارف بھی اتروا لئے جاتے ہیں ۔
مذہبی و شخصی آزادی کا ڈھنڈورا پیٹنے والی اقوام متحدہ ایسے میں خاموش ہوجاتی ہے۔ جب مغربی معاشرے میں ایک عورت نہایت مختصر لباس پہن کر اپنی آزادی کا اظہار کر سکتی ہے تو ایک مسلم عورت کیوں حجاب یا پردہ اختیار کرنے پر انتہا پسند قرار دی جاتی ہے۔ مغرب کا منافقانہ طرز عمل مسلمانوں کے مذہبی شعائر کے خلاف تعصب کا منہ بولتا ثبوت ہے۔
المیہ یہ ہے کہ آج مسلم خواتین مغرب کے جال میں آکر اپنی تہذیب سے دور ہو رہی ہیں۔ چادر بتول کو چھوڑ کر اپنے جسموں کو سجانے اور نت نئےفیشن کو اپنانے میں مشغول ہیں۔ حضرت علامہ کو مغرب کے ان تمام فکری رجحانات اور نظریاتی فتنوں کا احساس تھا اور اسکے نتائج سے بھی با خبر تھے۔ اس احساس نے اقبال کو سوئی ہوئی اُمت کو جگانے پر مجبور کیا۔
بہل اے دختر ک ایں دل بریھا
مسلمان را نہ زیبد کافریھا
منہ دلبر جمال غازہ پرور
از نگاہ بآموزغارت گری با
“اے میری پیاری چھوٹی بٹیا ! یہ آرائش و زیبائش چھوڑ دے، مسلمانوں کو یہ کافرانہ ادائیں زیب نہیں دیتیں۔ اس مصنوعی آرائش و غازے کی سرخی کو چھوڑ کر کردار کی طاقت سے دلوں کو مسخر کرنا سیکھو۔
نیکی کی تم تصویر ہو عفت کی تم تدبیر ہو
ہو دین کی تم پاسباں ایماں سلامت تم سے ہے
فطرت تمہاری ہے حیا طینت میں ہے مہر و وفا
گھٹی میں ہے صبر و رضا انساں عبارت تم سے ہے
(الطاف حسین حالی)
اقبال نے اُمت کی بیٹیوں کو بتایا کہ وہ سیپ میں موجود موتی کی مانند ہیں اور حجاب ناصرف عورت کو تحفظ دیتا ہے بلکہ ایک عورت کو تقدس بھی عطا کرتا ہے۔
حفظ ہر نقش آفریں از خلوت است
خاتم او رانگین از خلوت است
“آفاق کے سارے ہنگامے پر نظر ڈالو۔ تخلیق کرنے والی ہستی کو جلوت کے ہنگاموں کی تکلیف نہ دو اس لیے کہ ہر تخلیق کی حفاظت کے لیے خلوت کی ضرورت ہوتی ہے اور اس کے صدف کا موتی خلوت میں جنم لیتا ہے۔”
شرم و حیا عورت کا سب سے بڑا زیور ہے اور اس قیمتی زیور کی حفاظت پردے کے بغیر ممکن نہیں۔ اقبال کے خیال میں اللہ تعالی کو حجاب اور پردے کی صفت اتنی محبوب ہے کہ ہر تخلیق کرنے والی ہستی کو اپنی طرح حجاب میں رہنے کا پابند بناتا ہے کہ وہ تخلیق کی بہتر حفاظت اور پرورش کرسکے۔
بتولے باش و پنہاں شو ازیں عصر
کہ در آغوش شبیرے بگیرے
(علامہ اقبال )
“بتول بن جاؤ اور اس زمانے کی نظر سے چھپ جاؤ کہ تمہاری گود میں ایک حسین پرورش پاسکے۔”
حجاب وہ تحریک ہے اور چادر بتول اور یادگار فاطمہ و عائشہ ہی وہ ذریعہ ہیں جس سے معاشرے اور مستقبل کا تحفظ کر سکتے ہیں اور پاکیزہ نسل انسانی کو پروان چڑھا سکتے ہیں۔
وہی ہے راہ تیرے عزم و شوق کی منزل
جہاں ہیں عائشہ فاطمہ کے نقش قدم