یہ ایک تلخ حقیقت ہے کہ ہم بحیثیت اُمت، دین سے دور ہو چکے ہیں۔تقویٰ،احساس ذمہ داری اور آخرت کی جواب دہی کا تصور ۔۔۔ جو مسلم قوم کا خاصہ تھا، اب رخصت ہوتا جا رہا ہے۔حالانکہ یہ وہ صفات حسنہ ہیں جو انسان کو اخلاق کے اس اعلیٰ مقام سے گرنے نہیں دیتیں کہ ۔۔۔۔۔۔۔ شرف انسانیت جس کی متقاضی ہیں۔۔۔ یہ ایسی خوبیاں ہیں جو ہر دو انسانوں کو اخوت کی لڑی میں پروئے رکھتی ہیں۔۔۔اور یہ وہ تصور ہے جو حق تلفی سے باز رکھتا ہے۔
اسی ضمن میں اسلامی معاشرے میں موجود نکاح کے عہد کو ہی لے لیجئے۔ نکاح وہ عہد ہے جو نہ صرف یہ کہ دو افراد کو آپس میں جوڑتا ہے بلکہ دو گھرانوں، خاندانوں کو بھی عہد کی ڈوری میں کس لیتا ہے۔ نکاح درحقیقت معاشرے کی سب سے چھوٹی اکائی یعنی گھر کے اصول وضوابط کی درستگی کا اقرارنامہ ہے، یہ ہر دو افراد بلکہ خاندانوں کو باور کرواتا ہے کہ وہ ایک ایسے عہد کی لڑی میں پروئے جاچکے ہیں کہ جس کی بنیاد تقویٰ پر رکھی گئی ہے۔
خطبہ نکاح دراصل تقویٰ کا ہی درس ہے، جو افرادخانہ کو ان کے حقوق وفرائض کی حدود سے روشناس کرواتا ہے اور انہیں ایک دوسرے پر ظلم وزیادتی سے باز رکھتا ہے، یعنی اس عہد کے بعد وہ ایک دوسرے کے حقوق غصب کرتے ہیں ۔۔۔حق تلفی کرتے ہیں۔۔۔ کمزور سمجھ کر یا مجبور سمجھ کر دباتے ہیں یا بےضرر سمجھ کر زک پہنچاتے ہیں، یا شرافت کو کمزوری خیال کر کے دوسرے کا استحصال کرتے ہیں۔۔۔تو دراصل وہ اس میثاق کی خلاف ورزی کر رہے ہوتے ہیں۔
مثلاً نکاح کے بعد خاندان میں شامل ہونے والا نیا فرد، یعنی بہو کو ہی لے لیا جائے، تو المیہ یہ ہے کہ بہو کو اس کی تمام تر صفات کے باوجود خاندان کا فرد تسلیم کرنا یعنی ویسے حقوق دینے میں بہت دُشواری محسوس کی جاتی ہے۔ اس کو طرح طرح سے اذیت دینا اور بلا وجہ تذلیل وتحقیر کرنا اپنا حق سمجھا جاتا ہے۔ ذہنی پستی اور اخلاقی گراوٹ کا یہ عالم ہے کہ بہو کو سرِمحفل نشانہ تضحیک بنا کر اس پر قلبی اطمینان محسوس کیا جاتا ہے۔
اب اگر تو بہو تحمل و برداشت کا ثبوت دیتی ہے اور گھر کے مسائل اپنی اور اپنے سہاگ کی پردہ پوشی کرتے ہوئے، کسی سے بیان نہیں کرتی۔۔۔تو دن بدن اس نفسیاتی و نفسانی شر سے لڑتے لڑتے نفسیاتی و جسمانی بیماریوں میں مبتلا ہوتی چلی جاتی ہے۔ دوسری طرف اگر بہو اپنے جائز حقوق کی طلب میں کوئی قدم اٹھاتی ہے تو بجائے حق کے حصول کے، اُلٹا عموما اس کے مسائل میں اصافہ ہو جاتا ہے۔
ہمارے اس رویے کی وجہ بلاشبہ تقویٰ کی شدید کمی ہے۔۔۔ہم بھول جاتے ہیں اگر ہماری عبادت ہم سے معاملات میں تقویٰ پر عملدرآمد نہیں کروا پاتی۔ تو یہ عبادت نہیں ،صرف عادت ہے ہماری۔۔(معذرت کے ساتھ)۔ بعض اوقات کوئی احساس محرومی ہمیں ایسا سلوک کرنے پر اکساتا ہے تو کبھی احساس برتری کے زعم میں ہم بہو کو وہ حقوق دینے پر بھی تیار نہیں ہوتے جو ہمارے گھر کام کرنے والے ملازمین بخوبی رکھتے ہیں۔۔۔بہت دفعہ ہم اپنے احساس کمتری کی خفت مٹانے کے لئے بہو سے ایسا سلوک روا رکھتے ہیں۔۔۔اور کبھی صرف ہمارے اندر کا شر ہی ہمیں ایسا رویہ رکھنے پر اکساتا ہے۔ وجہ خواہ کچھ بھی ہو ،بہرحال اپنی نفسیاتی تسکین کی خاطر ہم ایک فرد (جو دراصل پوری انسانیت ہے) کی بہت سی حق تلفی کر بیٹھتے ہیں۔
حالانکہ ان خود ساختہ مسائل کا تدارک کچھ مشکل کام نہیں، اگر ہم تقویٰ پر عمل پیرا ہو جائیں،مضبوط قوت ارادی یعنی قوت ایمانی کے ساتھ، ہماری عبادت کا اثر ہمارے معاملات میں بھی جھلکنے لگے یعنی ہماری عبادت ہمیں خوف خدا سے کام لینا سکھا دے۔ اور جب نفس ہمیں کسی غلط رویے پر اکسائے تو شیطان کی اکساہٹوں سے اللہ کی پناہ میں آئیں، معوذات کے ذریعے۔ یہی حل ہے ہمارے پاس مسائل سے نبرد آزما ہونے کا۔۔۔اور یہی صورت ہے ایک با وقار گھرانے کے قیام کی، خاندان کے فلاح واستحکام کی۔