عورت عربی زبان کا لفظ ہے جس کا لغوی معنی پردہ یا ستر ہے۔ اصطلاحی معنی ہیں کسی چیز کو چھپانا۔ ہر وہ چیز جو چھپانے والی ہے اسے عورت کہتے ہیں تو یوں یہ ثابت ہو گیا کہ لفظ عورت کا مطلب ہی ڈھکی چھپی چیز ہے۔ جو چیز جتنی زیادہ قیمتی ہوتی ہے اسے اتنا ہی حفاظت سے، لپیٹ کر، چھپا کر رکھا جاتا ہے۔ قانون فطرت دیکھ لیں پھل ہو یا سبزی، جس کی اصل جتنی زیادہ نازک ہے قدرت نے اسے ڈھانپنے کا اتنا ہی زیادہ مضبوط انتظام کیا ہے۔ آم، انگور، انار، مالٹا اور ان جیسے کئی پھل اسکی مثال ہیں۔ موتی کو سخت خول والی سیپ میں بند کر دیا ہے۔ انسان کا رویہ بھی تو یہی ہے کہ وہ قیمتی چیزوں کو کب سرِ عام کھلا چھوڑتا ہے۔ وہ کبھی بھی روپوں یا زیورات کو کھلے عام کسی چوراہے پر نہیں چھوڑے گا۔ پھر ایک مسلمان عورت کی عزت و عصمت تو دنیا میں موجود ہر چیز سے زیادہ قیمتی و افضل ہے۔ ربِ کائنات اسے ڈھانپنے اور اس کی حفاظت کا حکم جاری کیوں نہ کرتا؟ عورت کے معاملے میں تو ہر قوم اور مذہب میں کچھ نہ کچھ غیرت و حمیت ضرور پائی جاتی ہے۔ ہر مذہب کی تعلیم میں اس کی حفاظت کا انتظام موجود ہے۔ لیکن اسلام عورت کے ساتھ حسنِ سلوک اور اس کی حفاظت کے بہترین انتظام و انصرام میں تمام ادیان پر فوقیت لے گیا ہے۔ ابتدائے مدنی دور کی بات ہے کہ مدینہ کے بازار میں ایک سنار کی دکان پر ایک یہودی مرد نے ایک مسلمان عورت کو ہراساں کرنے کی کوشش کی تو اس بازار سے گزرتے ہوئے ایک مسلمان مرد کو معلوم ہوا اس کی دینی حمیت برداشت نہ کر سکی اور مسلمان نے اس یہودی کو قتل کر دیا۔
ایک مسلمان مرد صرف اپنے گھر یا خاندان کی عورتوں کی عزت کا محافظ نہیں بلکہ وہ تمام عالمِ اسلام کی خواتین کی عزت و حرمت کا محافظ ہے۔ یہی اس کی دینی غیرت و حمیت کا تقاضہ ہے۔ جس معاشرے کی عورت جتنی زیادہ پاکیزہ اور محفوظ ہو گی وہ معاشرہ خانگی زندگی میں اتنا ہی مضبوط و پر سکون ہو گا اسی لیے اللہ تعالیٰ نے اپنی آخری کتاب میں عورتوں کو واضح الفاظ میں حکم دیا ہے۔
“اور آپ مومن عورتوں کو کہہ دیجئے کہ وہ بھی اپنی نگاہیں نیچی رکھیں، اور اپنی شرم گاہوں کی حفاظت کریں، اور اپنی زینت کو ظاہر نہ کریں، سوائے اسکے جو ظاہر ہے، اور اپنے گریبانوں پر اپنی اوڑھنیاں ڈالے رکھیں۔ اور اپنی آرائش کو کسی کے سامنے ظاہر نہ کریں” (النور: آیت 31)
پھر اسی سورہ مبارکہ میں ان مردوں کی تفصیل بھی بتا دی جو عورت کے محرم مرد ہیں اور ان کے سامنے کھلے چہرے اور بناؤ سنگھار کے ساتھ بھی آسکتی ہے۔ ایک اور جگہ فرمایا۔
“اے نبی صلی اللہ علیہ وسلم اپنی بیویوں اور اپنی بیٹیوں سے اور مسلمانوں کی عورتوں سے کہہ دو کہ وہ اپنے اوپر اپنی چادریں لٹکا لیا کریں اس سے بہت جلد ان کی پہچان و شناخت ہو جایا کرے گی پھر وہ ستائی نہ جائیں گیں، اور اللہ تعالیٰ بخشنے والا مہربان ہے”(الاحزاب: آیت 59)
ان آیات سے واضح ہو گیا بے پردگی اور زیب و زینت ظاہر کرنا مومن عورت کا شیوہ نہیں۔
پردہ مسلمان عورت پر واجب ہے،حیا دار اور خاندانی عورت کی پہچان ہے۔ ایک لونڈی اور آزاد عورت کے درمیان تمیز ہے۔
پھر فرمایا۔
اپنے گھروں میں پر وقار رہو اور سابق دورِ جاہلیت کی طرح سج دھج نہ دکھاتی پھرو۔” (الاحزاب: آیت 23)
قرآن نے جس سج دھج دکھانے کو جاہلیت کا دستور قرار دیا ہے، افسوس! آج ہماری ماڈرن عورت دوبارہ اپنے آپ کو جاہلیت کے گٹر میں دھکیل رہی ہے۔ اسلام نے عورت کو تمام معاشی فکروں سے آزاد رکھا ہے۔ مرد ہر روپ میں اس کا ذمہ دار و کفیل ہے۔ اللہ تعالیٰ نے اسے محرم مردوں کی محافظت میں دیا ہے۔ مردوں کو عورتوں کا قوام بنایا ہے۔ عورت کا گھر سے بلا ضرورت باہر نکلنا نا پسند کیا ہے۔ اگر ضرورت کے تحت نکلنا پڑ جائے تو گھر سے باہر نکلنے کے قوائد بھی بتائے ہیں۔ کہ بے پردہ نہ ہو، بنؤ سنگھار ظاہر نہ ہو، اس سے خوشبوؤں کے بہبہکے نہ اٹھ رہے ہوں، آواز دینے والا زیور یا جوتا نہ پہنا ہو، تا کہ ان کی طرف کوئی ہوس زدہ و گندی نظر نہ اٹھے۔ ان قوائد میں عورت کے لیے ہی فوائد ہیں۔ ان کی حفاظت و تحریم، عزت و احترام کو ہی پیشِ نظر رکھا گیا ہے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا۔
“عورت چھپانے کی چیز ہے جب وہ گھر سے نکلتی ہے تو شیطان اسے جھانک رہا ہوتا ہے”(ترمزی)
یعنی عورت اگر بے پردہ اور لوگوں کو نظارہ دعوت دے رہی ہو تو شیطان صفت مردوں کی گندی نظروں میں ہوتی ہے۔ پردے کا حکم نازل ہونے کے بعد صحابیات اور ازواج مطہرات سب سے پہلے اس حکم پر عمل پیرا ہوئیں اور جب تک زندہ رہیں سختی سے کار بند رہیں۔
حضرت اُمّ خلاد رضی اللہ تعالیٰ عنہا اپنے شہید بیٹے کے بارے میں آپ صلی اللہ علیہ وسلم سے خبر دریافت کرنے حاضر ہوئیں تو چہرے پر نقاب ڈالے ہوئے تھیں دوسری خواتین نے دیکھ کر کہا، یہ عورت اس المناک صورتحال میں بھی نقاب اوڑھے ہوئے ہے۔ حضرت اُمّ خلاد نے جواب دیا، مصیبت مجھ پر آئی ہے میری شرم و حیا پر نہیں۔ پھر وہ واقعہ بھی یاد آتا ہے جب ایک عورت آپ صلی اللہ علیہ وسلم کے پاس آئی جسے مرگی کا مرض تھا۔ عرض کیا، میں مرگی کی مریضہ ہوں دوران مرض میرا ستر کھل جاتا ہے۔ میرے لئے اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں کہ مجھے صحت عطا فرمائے۔ آپ صلی اللہ علیہ وسلم نے فرمایا کہ” تو بیماری پر صبر کرے تو تمہارے لئے اجر جنت ہے اور اگر تو چاہے تو میں اللہ تعالیٰ سے دعا کرتا ہوں کہ تجھے صحت عطا فرمائے۔”
تو اس عورت نے عرض کیا میں صبر کروں گی لیکن ساتھ یہ بھی عرض کیا کہ مرگی کے دوران میرا ستر کھل جاتا ہے، اللہ تعالیٰ سے دعا فرمائیں، میرا ستر نہ کھلے۔
رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم نے اس کے لیے یہ دعا فرمادی (بخاری5328)
دیکھیں اس عظیم صحابیہ نے بیماری پر تو صبر کر لیا لیکن بے پردگی پر صبر نہیں کیا۔ پردہ مسلمان عورت کی پاکیزگی بھی ہے ضرورت بھی اور پہچان بھی ہے۔ چھوٹی بچی کے لیے بھی چہرے کا نقاب نہ سہی لیکن لباس مکمل اور حیا دار ہونا چاہیے۔ بالغ ہونے پر پردہ و نقاب اپنا لے۔ اپنا دل بھی پاکیزہ رکھے اور اپنے آپ کو دوسروں کی غلیظ نظروں سے بھی بچائے۔ پھر دیکھنا اِن شاء الله ان خواتین کی گودوں میں پلنے والے بچوں میں سے ہی حضرت عمر فاروق، عمر بن عبدلعزیز، امام بخاری، امام ابو حنیفہ، طارق بن زیاد، صلاح الدین ایوبی جیسے نامور انسان نکلیں گے اور اسلام کا درخشاں سورج اپنی پوری آب و تاب کے ساتھ ایک بار پھر چمکے گا اِن شاءالله ۔
یہی تو اسلام دشمن نہیں چاہتے اور آزادی کے نام پر ہماری عورت کو بے حیائی کی طرف دھکیلنے کی کوشش کر رہے ہیں۔ اسی لیے تو مسلمان عورت کے اوڑھنے والا دو گز کپڑے کا ٹکڑا انہیں خوف میں مبتلا کرتا ہے۔ اب آپ لوگ خود سوچیں ہمیں کیا کرنا ہے؟۔