راشدہ ! ( ساجدہ سے) یہ لڑکا تو بالکل نالائق ہے، میں سارا سال اس کو بھگت چکی ہوں، اسکی تو ماں بھی اس سے پریشان آچکی ہے، مس راشدہ کی بات پر ساجدہ کو بڑا دکھ ہوا، اس نے بہانے سے عمیر کو کلاس میں بھیج دیا۔
ساجدہ ایک ذہین اور سمجھ دار ٹیچر تھی۔ اسی لیے پرائمری سے آئے بچوں کو بڑی مہارت اور پیار سے قابو کرنا جانتی تھی خصوصاً عمیر جیسے بچے اس سے مانوس ہوجاتے اور پڑھائی میں دلچسپی بھی لینے لگتے۔ یہ بات میڈم ریحانہ بھی اچھی طرح جانتی تھیں۔ لہٰذا نئی کلاس میں آنے والے تمام بچوں پر اس نے توجہ دی لیکن خصوصی طور پر اس نے عمیر کو نوٹ کیا کہ وہ اتنا نالائق نہیں جتنا اسے تنقید کا نشانہ بنایا جارہا تھا۔ چند دن کی توجہ دینے اور اسکے کام پر اس کی حوصلہ افزائی کرنے سے اس میں نمایاں تبدیلی نظر آئیں، جس پر اس کی والدہ بھی حیران تھیں۔
مس ساجدہ( عمیر کی والدہ سے) تمام بچے یکساں طور پر ایک جیسی صلاحیتوں والے نہیں ہوتے ، آپ کا بیٹا نا صرف توجہ چاہتا ہے بلکہ میرا مطلب ہے اگر وہ کوئی ایک خوبی کا مالک ہے تو اس کی تعریف ضرور کریں ہر وقت کی تنقید اور اسکے کام میں کیڑے نکالنے سے وہ آگے نہیں بلکہ پیچھے کی طرف چلا جائے گا، بڑوں کو بھی بے جا تنقید کا نشانہ بنایا جائے تو مایوس ہو کر اپنے کام میں بہتری لانے کے بجائے خرابی پیدا کرنے لگتے ہیں ،جبکہ اگر متوازن طریقے سے اس کی خامیوں کی نشاندہی کرنے سے اس میں بہتری پیدا ہوسکتی ہے۔ مس ساجدہ کے سمجھانے سے عمیر کی امی نے بھی اپنا جائزہ لیا تو انہیں احساس ہوا کہ دوبچوں کی پیدائش کے بعد وہ اتنی مصروف ہوگئیں کہ انہوں نے عمیر پر کم ہی توجہ دی بلکہ اس کے ہر کام اور شرارت پر سختی سے ڈانٹنے ڈپڈنے سے وہ ضدی اور خود سر بھی ہوگیا۔ پڑھائی میں بھی دلچسپی نہیںلے رہا تھا۔ اب جب اس پر توجہ کے ساتھ اسکی حوصلہ افزائی بھی کی گئی تو اسکی بہت سی خوبیاں بھی سامنے آئیں اسکی ڈرائنگ بہت اچھی تھی جس کے بارے میں اس سے پہلے کسی کو معلوم بھی نہیں ہوسکا تھا۔
بیشک مثبت متوازن رویہ نہ صرف بچوں بلکہ بڑوں کی صلاحیتوں کو اُجاگر کرنے میں کارآمد ثابت ہوتا ہے۔ لیکن ہمارے معاشرے کی یہ تلخ حقیقت ہے کہ ہر بات وموقع پر تنقید و اعتراض کی بارش برسانا فرض سمجھا جاتاہے یا بلاوجہ بحث چھیڑ دی جاتی ہے جس کی وجہ سے اکثر سامنے والابندہ تو خاموشی اختیار کر لیتا ہے اور بعض اوقات یہی تنقید اعتراض سامنے والے کی صلاحیتوں کو مانند کردیتا ہے جبکہ حوصلہ افزائی مثبت رویہ نہ صرف بچوں بلکہ بڑوں کی کارکردگی کو جلا بخشتا ہے۔
کسی کی غلطی کی نشاندہی نہ کرنا بھی نا انصافی ہوگا اگر سامنے والے میں کوئی غلطی یا کوتاہی نظر آئے تو مثبت اور تعمیری انداز میں اکیلے میں اسے اس طرح بتایا جائے کہ اسے برا بھی نہ لگے اور وہ اپنی با آسانی اصلاح بھی کر سکے۔
بیشک تنقید برائے اصلاح کے مثبت طریقے کے ساتھ ساتھ حوصلہ افزائی ہر عمر اور ہرشخص کے لیے یقیناً کارآمد ثابت ہوگی۔