حجاب سے مراد پردہ، لباس بھی لیا جاتا ہے اور شرم، لحاظ بھی۔ مستور ہونا بھی حجاب کا تقاضا ہے اور فطرت کی راہ پر چلتے چلے جانے میں بھی حجاب ہی مددگار ہے۔
حجاب اسی کا نام ہے جو گناہ کی راہ میں رکاوٹ بنتا ہے، خواتین کی عزت کا محافظ بھی ہے اور مردوں کی حدود کا تعین بھی کرتا ہے اور انہیں اس حد سے باہر نکلنے سے روکتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ انسان کوئی بھی نامناسب طرز عمل اختیار کرنے سے حجاب محسوس کرتا ہے۔ مروت، لحاظ حجاب ہی کے نتیجے میں برتا جاتا ہے۔ غرض حجاب ہر اس گناہ کی راہ میں آڑ ہے جس کے لئے نفس اکساتا ہے۔ ہر اس فعل کی بجاآوری میں رکاوٹ بنتا ہے جو فطرت سے بغاوت پر آمادہ کرنے والا ہوتا ہے۔
لیکن، آج جب ہم فتنے کے اس دور میں داخل ہو چکے ہیں جہاں فطرت سے منظم جنگ چھیڑ دی گئی ہے، فطرت سے جنگ کے لئے غیر مسلم و مسلم کی تمیز کیے بغیر بظاہر محسوس نہ ہونے والی ذہن سازی کی جا رہی ہے، مسلمان بوجہ شہادت حق کے داعی اور امام الناس ہونے کے، دجالی گروہ کا خاص ہدف ہیں، کھلم کھلا برائی کی شکل میں مسلمان برائی کرنے کے لئے کبھی تیار نہیں ہوتا لیکن جس دجل اور فریب سے کام لے کر برائی کو اب پیش کیا جارہا ہے اور اسے قابل قبول بنایا جا رہا ہے اتنی شدت شاہد پہلے کبھی نہ تھی۔ مثلا ! ہم، ہم جنس پرستی یا عمل لوط کو ہی لے لیں تو ہم دیکھتے ہیں کہ بچوں تک کی ایک خطرناک شرح اس عمل مبتلاء پائی جا رہی ہے معاشرے میں اس کے لئے زمین ہموار کرنے کی پوشیدہ کوششیں جو عرصہ دراز سے جاری تھیں کامیابی کا آخری زینہ عبور کرنے کو ہیں۔ سر دست ، قانون سازی تب ہی کروائی جاتی ہے جب زمین ہموار کر لی جاتی ہے، جسم اس برائی سے لتھڑ گیا ہوتا ہے اور ذہن اس برائی کو لذت، تفریح، فیشن کے نام پر قبول کر چکا ہوتا ہےاور اسے قبیح فعل تو کیا معیوب بھی نہیں سمجھا جا رہا ہوتا۔
حجاب ڈے کے اس موقع پر ہمارا مشن اور فوکس اس برائی کی جڑ کا خاتمہ کرنا ہے۔ حیاتیاتی رو سے شناخت کروانے کی بجائے ذاتی خیالات کے مطابق رجسٹریشن کروانے کی حوصلہ شکنی ہماری مہم کا حصہ ہو گا، 28723 درخواستیں( پروٹیکشن آف رائٹس) ایکٹ (2018) کی منظوری کے بعد جنس میں تبدیلی کے لیے نادرا کو موصول ہوئیں جو کہ تشویشناک پہلو ہے، ٹرانس جینڈر یعنی وہ افراد جن کی جنس میں پیدائشی طور پر ابہام ہوتا ہے کہ شرح بہت کم ہوتی ہے مگر اس قانون کی آڑ میں طبی تصدیق کے بغیر درخواست کی بنیاد پر جنس میں تبدیلی کی جا رہی ہے جو قابل فکر پہلو ہے ۔ وراثت کا قانون بھی اس سے متاثر ہوتا ہے اور معاشرتی اقدار بھی خطرے کا شکار ہیں۔ سب سے بڑھ کر اس ذہنی کیفیت اور نفسیات کی اصلاح کی ضرورت ہے جس کی بناء پر مرد عورت اور عورت مرد کا روپ دھارنا چاہتی ہے اسی لئے مذہبی جماعتوں نے تشویش کی نظر سے اس قانون کو دیکھا اور اسی لیے سینیٹر مشتاق احمد خان نے قانون میں ترمیم کا مطالبہ کیا۔ اور میڈیکل بورڈ کی تشکیل کا مطالبہ کیا۔ دراصل، عمل لوط کی کھلم کھلا قانون سازی اس کی آڑ میں کی جا رہی ہے، فطرت سے جنگ کی جا رہی ہے جو حجاب کے تقاضوں کے بھی خلاف ہے۔ حجاب ہمارا کلچر نہیں کہ اس میں ترمیم کی گنجائش ہو لہٰذا ترمیم 2018 میں پاس ہونے والے بل میں ہی کرنا ہو گی۔ حجاب کا تقاضا ہے کہ اس قانون کے خلاف جہاد میں عملاً حصہ لیا جائے۔ حجاب ڈے کے اس موقع پر ہم پھر مطالبہ کرتے ہیں کہ عورت کو اس کے دائرہ کار اور دائرہ عمل میں احترام دیا جائے اور مرد کو اس کے دائرہ کار میں ۔ یوں اس ذہنی مرض کا علاج آسان ہو گا جس کی بناء پر عام خواتین مرد اور عام مرد، عورت کا بھیس اختیار کرنا چاہتا ہے۔
درحقیقت معاشرے کا ایک بڑا طبقہ اس قبیح عمل میں مبتلاء ہے یہی وجہ ہے کہ قانون سازی کے ذریعے اس کی قباحت ختم کرنے کی کوشش کی گئی۔ اگر ہمیں اس گناہ سے حجاب اختیار کرنا ہے تو اپنی نسلوں کو قوم لوط کے قصے سے خبردار کرنا ہو گا، اب وہ وقت گزر چکا ہے جب بچے قوم لوط کے واقعے کو سمجھنے سے قاصر تھے۔ اب، جب کہ عمل لوط کو قانوناً تحفظ مل چکا ہے، ہمیں اپنی نسلوں کو واشگاف الفاظ میں اس فتنے سے آگاہ کرنا ہو گا ، اس عذاب کا ذکر عام کرنا ہو گا جو قوم لوط پر آیا، گناہ جب تک حجاب میں رہ کر کر کیا جائے اتنی تباہی نہیں لاتا جتنی کھلم کھلا صورت میں متوقع ہے۔ یوم حجاب یہی درس دیتا ہے کہ اس گناہ سے حجاب اختیار کیا جائے لیکن جب گناہ کھلم کھلا ہونے لگے تو بے جا حجاب اختیار کر کے اپنی نسلوں کو خطرے میں نہ ڈالا جائے۔ یاد رہے انصار کی عورتوں کی اسی لئے تعریف کی گئی کہ وہ بے باکی سے دین کے احکام پوچھ لیا کرتی تھیں، لہٰذا اب والدین کو بے جا حجاب ترک کرنا ہو گا اور گناہ سے حجاب کرنا بچوں کو سکھانا ہو گا ورنہ یاد رکھیے گُھن کے ساتھ گیہوں بھی پس جایا کرتا ہے۔ اللہ ہمیں یوم حجاب کے تقاضے سامنے رکھ کر حکمت عملی طے کرنے کی توفیق دے ۔ آمین۔