ہمارا ملک اس وقت سیلاب کی تباہ کاریوں کا شکار ہو چکا ہے۔ زندگی کی سیکڑوں شمعیں بجھ چکی ہیں۔ ہزاروں جانور بے بسی کی نیند سو چکے ہیں۔ کئی ہیکٹر زرعی فصلیں ملیا میٹ ہو چکی ہیں۔ لاکھوں لوگ بے سروسامانی کی حالت میں دربدر ہیں۔ لوگ پانی کے بے رحم ریلوں کے بیچ زندگی اور موت کی کشمکش میں مبتلا ہیں۔ کئی معصوم ننھے پھول مرجھا چکے ہیں۔ ان کی معصوم روحیں بار بار یہ سوال کر رہی ہیں کہ ہمیں کس غلطی کا خمیازہ بھگتنا پڑا ہے۔ ان کے بچ جانے والے بے بس والدین یہ التجا کر رہے ہیں کہ، ایسی بے بسی سے سب کو بچانا ”یارب“ ۔ اپنے مال، گھر اور حتی کہ اپنے جگر کے ٹکڑوں کو گنوانے والوں کے لئے تو قیامت بھرپا ہو چکی ہے۔
سیلاب پانی کے بے جا، تیز یا بے رحم بہاؤ کو کہا جا سکتا ہے۔ سیلاب زرعی رقبوں اور ان پر محیط فصلوں، دیگر جاندار و بے جان املاک اور دیہی و شہری آبادی کو غیر محفوظ کر سکتے ہیں۔ ’گلوبل وارمنگ‘ کی وجہ سے حائل موسمیاتی تبدیلیوں سے دنیا بھر میں مختلف علاقوں کو سیلاب جیسی قدرتی آفات کا سامنا ہے۔ آئندہ دنوں شائد یہ مسئلہ شدت اختیار کر جائے۔ پاکستان سمیت اس کے ہمسایہ ممالک چائنہ، بھارت، افغانستان حتی کہ بنگلہ دیش اور دیگر کو بھی گزشتہ برسوں اس صورتحال کا سامنا رہا ہے۔ نارتھ امریکہ اور یورپ کے مختلف خطے بھی سیلابی صورتحال کا شکار ہو چکے ہیں۔ دنیا بھر میں ایسی صورتحال میں لوگوں کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنا ہی سرکار کی اولین ترجیح ہوتی ہے۔
اس بات کے شواہد موجود ہیں کہ، زمانہ قدیم میں بھی سیلابی صورتحال سے لوگ متاثر ہوتے رہے ہیں۔ زمانہ قدیم سے لے کر اب تک پانی کا مقابلہ انسانوں کے لئے بڑا چیلنج ہے۔ ہاں البتہ انسانی دماغ نے اس کے نقصان کو کم کرنے کے لئے نت نئے طریقے ضرور دریافت کئے۔ انسانوں نے پانی کے حوض بنائے جسے نہ صرف سیلابی پانی کو کنٹرول کرنے میں مدد ملی، بلکہ پانی کی قلت کو کسی حد تک کم کیا۔ زمانہ قدیم میں بہت سے قدرتی حوض اور ندلی نالے موجود تھے۔ جو پانی کے بہاؤ کے حساب سے کام کرتے تھے۔انسانوں کی بڑھتی آبادی کے ساتھ ضروریات بھی بڑھتی گئیں۔انسانوں نے پانی کو استعمال کرنے اور اس کے بہاؤ کو کنٹرول کرنے کے لئے نہریں، ندی نالے، بیراج اور ڈیم بنائے۔ دنیا بھر میں پانی کی تباہ کاریوں سے بچنے کا راہنما اصول یہی ہے کہ اسے مختلف برانچوں میں تقسیم کر کے اس کے بہاؤ کو بھی تقسیم کر دیا جائے۔ اس سے پانی دور دراز علاقوں تک بھی پہنچ جاتا ہے، اور پانی کا بہاؤ بھی قابل کنٹرول ہو جاتا ہے۔ پاکستان میں انسویں صدی میں انگریزوں کا بنایا ہوا، ایک بڑا نہری نظام موجود ہے۔ پاکستان میں متعدد دریا، ڈیم، بند، بیراج، ندی نالے اور رابطہ نہریں بھی موجود ہیں۔ جو پاکستان میں زرعی بقاء کی ضمانت ہیں۔ یہ سیلاب کی شدت کو کم کرنے میں بھی معاون ہیں۔
چونکہ ملک کا بیشتر حصہ سیلاب کی لپیٹ میں ہے۔ اور مختلف فورمز پر مطالبات اٹھ رہے ہیں کہ،’ڈیم بناؤ اور سیلاب سے بچاؤ‘ وغیرہ۔ درحقیقت! ہمارا ملک معاشی لحاظ سے کمزور ہے۔ ایسے میں بڑے ڈیم بنانا اور ان کے پانی کے اخراج کے لئے نئے چینلز بنانا اس کا مکمل مفیدڈھانچہ تیار کرنا ایک مشکل اور مہنگا ترین کام ہے۔ ڈیم کی ضرورت پانی اور بجلی کی قلت کے مسائل کی بدولت بھی درپیش ہے، جس میں آنے والے دنوں میں بتدریج اضافہ ہوگا۔
چند لمحوں کے لئے اس ضرورت کو بھول جائیے اور سوچئے کہ سیلاب کی صورتحال میں ہم اور ہماری سرکار ان اختیارات یا ممکنات کو پورا کر سکے ہیں،جو ہمارے اختیار میں تھے۔ میرے خیال میں ہر باشعور اس کا جواب نفی میں دے گا۔کیوں کہ ہم ایسا نہیں کر سکے۔ کیا ہمارے کسی ادارے نے بروقت سیلاب زدہ علاقوں میں اطلاعات پہنچائیں کے یہاں خطرہ ہے؟
کیا ہماری انتظامیہ نے بروقت متاثرہ علاقوں کو خالی کروایا؟ کیا لوگوں کو بروقت محفوظ مقامات پر پہنچایا گیا؟ کیا لوگوں کو انتظامیہ نے ہجرت میں معاونت دی؟ کیا ہمارے متعلقہ ادارے پہلے سے اس سیلابی صورتحال سے باخبر تھے؟ اگر خبر تھی، تو پیشگی انتظامات کیا تھے؟ کیا ایسے علاقوں کو وقت سے پہلے خالی کروایا گیا تھا، جہاں انتہائی درجہ کے سیلاب کے خطرات موجود تھے؟ کیا موسم برسات سے پہلے ندی نالوں کی مرمت مکمل تھی؟ کیابند مضبوط تھے؟ کیا ہر سال برسات سے پہلے ندی نالوں کی صفائی کی جاتی ہے؟ کیا سیلاب سے بہہ کر آنے والی ریت اور مٹی سے نالوں کا بہاؤ متاثر نہیں ہوتا؟ کیا سرکار کے یہ محکمہ جات اور ان کا عملہ و املاک صرف وزیروں، مشیروں، اور ایم این ایز، ایم پی ایز کی زمینوں کی حفاظت پر معمور ہیں؟ کیا سرکار اور سرکاری عہدیدار اور سیاستدان صرف فوٹو سیشن کے لئے ہیں؟ سیلاب میں پھنسے لوگوں کو بروقت ریسکیو کرنا کس کا کام ہے؟ ہیلی کاپٹر یا ہوائی جہاز پر بیٹھ کر فضائی معائنہ ضروری ہے یا ان کے استعمال سے لوگوں کو ریسکیو کرنا؟ ایسے علاقوں میں جہاں ہر سال سیلاب کے خدشات موجود ہوتے ہیں، وہاں تعمیرات کو روکنا کس کا کام ہے؟ پلوں کی تعمیر اور حفاظت و مرمت کس کا کام ہے؟ کون ان کا جواب دے گا۔؟ ہے کوئی لیڈر و سربراہ جو ان سوالوں کا جواب دے؟ جو اپنی اور اداروں کی غفلت کا بھی حساب دے؟کیا سرکاری ادارے، سرکاری عہدیدار محض نمائشی ہیں؟ بہت سے سرکاری دوستوں سے معزرت کے ساتھ، کیا ہم اپنے رزق کو حلال کر رہے ہیں؟ ایسے مزید کئی سوالات ہیں جو ہر باشعور شہری کے زہن میں جنم لے رہے ہیں۔
ہم کئی جانیں اور دیگر نقصانات اپنے اختیارات کا درست استعمال کر کے بچا سکتے تھے۔ ہماری غفلت نے قدرتی آفت کو ایک بڑا سانحہ بنا دیا ہے۔ نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ، صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ، محکمہ موسمیات، ضلعی انتظامیہ، ایری گیشن ڈیپارٹمنٹ، این جی اوزاور دیگر مقامی انتظامیہ و متعلقہ ادارے اپنی کارکردگی کو سوشل میڈیا اور واٹس ایپ پر ظاہر کرنے کی بجائے، حقیقی معنوں میں کارکردگی کا مظاہرہ کریں۔
قدرتی آفات مختلف قوموں پر آتی ہیں۔ مگر باشعور قومیں ایسے موقعوں پر دکھاوے کو ترک کر کے متاثرین کی بروقت مدد و بحالی کے لئے کام کرتے ہیں۔ لیکن افسوس!ہم اور ہمارے ادارے تب بیدار ہوتے ہیں، جب پانی سر سے گزر چکا ہوتا ہے۔ کون بے بس لوگوں کے جان و مال کا ازالہ کرے گا؟ آخر کون؟۔