اس کے دماغ کی سوئی مسلسل ایک نکتے پر اٹکی تھی، بے چینی سی بے چینی تھی جو اس کی روح کو قرار نہ لینے دے رہی تھی۔ ذلت کے احساس سے اس کی آنکھیں نم اور اعضاء مضمحل سے تھے۔ اس کا دماغ یہ سوچ سوچ کر شل ہوئے جا رہا تھا کہ آخر مجھے اتنا بے جان اور بے حسی کیوں سمجھ لیا گیا ہے، کیا میرے جذبات نہیں، کیا مجھے غلط رویوں پر غصہ نہیں آتا! آہ، کہ احساس مروّت کے تحت کتنی ہی بار چہرے کے تاثرات پر قابو پایا، کتنی ہی بار دوسروں سے نہ الجھی۔ کتنی بار اپنی حدود میں داخل ہونے والوں کو نظر انداز کیا۔ کئی بار حد تہذیب کو پار کرتے رویوں پر نرمی برتی۔ شاید یہی وجہ ہے کہ مجھے بے جان سمجھ لیا گیا۔
بہت بار ایسا ہوتا ہے نا کہ آپ مروّت کے مارے اپنے سے بہت کم پر بھی راضی ہو جاتے ہیں جبکہ دوسری طرف والا بندہ اپنے تئیں یہ سمجھ رہا ہوتا ہے کہ میں نے بے وقوف بنا لیا، میں بہت اسمارٹ ہوں، میں بہت عقلمند ہوں۔ اور کبھی اس سے بھی اگلا قدم اٹھایا جاتا ہے اور آپ کو ہر محفل میں نشانہ تمسخر بنایا جاتا ہے، آپ کے جذبات کو کچلا جاتا ہے اور توقع کی جاتی ہے کہ آپ کچھ نہیں بولیں گے، غلط کی ہاں میں ہاں ملا دیں گے، آپ کو بے حسی و بے جان اور جذبات کے بغیر والی مخلوق سمجھ لیا جاتا ہے۔ مگر آپ ٹس سے مس نہیں کرتے۔
ایسا بھی ہوتا ہے کہ آپ اپنے سے کمزوروں کو بے جان اور غلام سمجھ کر اپنی چلانے کی تگ و دو میں لگے رہتے ہیں۔ اس وقت آپ یہ نہیں سمجھ رہے ہوتے کہ دوسرا پتھر کا بنا ہوا نہیں بلکہ آپ پتھر کے بنے ہوئے ہیں جو دوسروں کی تکلیف محسوس نہیں کرتے بلکہ پتھر بھی پھٹ جاتے ہیں۔ اور آپ ان سے بھی گئے گزرے ہیں۔
اگر آپ کے رویے اور معاملات دوسروں کے لئے تکلیف کا باعث ہیں یا دوسروں کے آپ کے لئے۔ ہر دو صورتوں میں ہمیں تربیت کی ضرورت ہے۔ ہمیں معلوم ہونا چاہیئے کہ رہبانیت انسان کی فطرت کے خلاف ہے، جب آپ کسی انسان کو زندگی کی دوڑ میں بار بار ٹوکتے رہتے ہیں یا اسے، اپنے ذلت آمیز رویوں سے سہمائے رکھتے ہیں۔ فساد کا خوف یا آپ کی عزت کا خیال کسی کو اپنی حدود میں بھی بے سکون رکھتا ہے۔ یا آپ کسی بھی طرح دوسرے کی آزادی (وہ آزادی جو اللہ تعالیٰ نے ہر انسان کو عطا کی ہے) میں مخل ہوتے ہیں تو دراصل آپ اسے راہب بننے پر مجبور کر رہے ہوتے ہیں، رفتہ رفتہ، ماحول سے دل برداشتہ شخص اپنے نفس کو سختی سے کچل کر رکھنے کا عادی ہو جاتا ہے، اوروں کے واسطے خواہ وہ کتنا ہی نرم ہو، کتنا ہی حساس دل رکھتا ہو مگر اپنے اوڑھنے پہننے، کھانے پینے، اپنے معاملات کے بارے میں بے حس ہو جاتا ہے ، خود پر جبر انسان کو توڑ پھوڑ کر رکھ دیتا ہے، نتیجتاً، یا تو وہ انسان بھی۔ اپنے ماتحتوں یا جن پر بھی زور چلا سکتا ہو۔ دوسرے انسانوں کو راہب بنانے کی پالیسی پر گامزن ہو جاتا ہے یا راہب بننے سے بچا لیتا ہے۔ لہذا، خدا کی قائم کی گئی حدود کا لحاظ رکھئے، دوسروں کی خوشیوں پر حسد کرنے اور ان کے مسکراتے چہروں کو افسردہ اور بے تاثر بنانے کی بجائے خلق خدا کی خوشیوں میں خوش رہیں، مسکراہٹیں بانٹنے والے بنیں تا کہ آپ کے ہاتھوں کوئی رہبانیت کی روش پر نہ چل پڑے۔
تاہم ، اگر خود آپ کو زندگی سے متنفر کر کے رہبانیت کی طرف مائل کیا جا رہا ہے تو بھی ذہن نشین کر لیجئے کہ اللہ نے آپ کو آزاد اور خودمختار پیدا کیا ہے لہٰذا، زندگی کو آپ پر کتنا ہی تنگ کر دیا جائے، اللہ سے مضبوط تعلق آپ کو راہب بننے سے بچا لے گا اور آپ مستقل راہب بننے سے بچ جائیں گے۔ حالات اپنے حق میں ہونے کا انتظار کیجئے، حتیٰ المقدور جدوجہد کیجئے تا کہ اپنی جائز خواہشات اور معصوم خوشیوں سے آنے والے اچھے دور میں لطف اندوز ہو سکیں۔