پسند کا بُت

ایک بار میں اپنی ایک ہمسایہ خاتون سے مہنگائی کے موضوع پر بات کر رہی تھی تو اس نے کہا، جتنی بھی مہنگائی ہوجاۓ، میں تو برانڈڈ کپڑے ہی لیتی ہوں! مجھے ایک جھٹکا سا لگا تو اس نے کہا کہ اصل میں مجھے پسند ہی وہ آتے ہیں۔ گھر آکے میں سوچتی رہی کہ ایک طرف معاشرے میں ایسے لوگ ہیں جو سارا دن محنت مشقت کرکے بھی دو وقت کے کھانے کو ترستے ہیں، دوسری طرف ایلیٹ کلاس ہے جو ہر چیز برانڈڈ استعمال کرتی ہے، ان کے بچوں کو کھلونے بھی وہ پسند آتے ہیں جو دوسروں کے پاس نہ ہوں۔

کچھ روز بعد اخبار پڑھتے ہوئے خبر پہ نظر پڑی کہ بیوی نے عید پہ نیا سوٹ نہ ملنے پہ شوہر سے جھگڑا کرکے گھر چھوڑ دیا۔ اس خبر نے سوچنے پہ مجبور کیا کہ کیا یہ سوٹ، اس گھر کے سکون سے زیادہ اہم تھا؟ حقیقت یہ ہے کہ بعض اوقات ہم اپنی پسند کو ایک بت بناکے اس کی پرستش کرنے لگ جاتے ہیں، حالانکہ پسند کوئی معیار نہیں ہے بلکہ ہمیں کسی چیز کو اپنی پسند بنانے سے پہلے کسی معیار پر پرکھنا چاہئیے اور وہ معیار ہے، رضائے الٰہی۔ ایک مسلمان کو وہ چیز پسند آتی ہے جس کو اس کے رب نے پسند کیا ہو اور وہ چیز اچھی نہیں لگتی جس کی اجازت اس کے رب نے نہیں دی۔ یہی جائز اور ناجائز کا فرق بھی ہے۔

حضرت ابو ہریرہ رضی اللہ عنہ نے فرمایا کہ رسول اللہ صلی اللہ علیہ وسلم کا ارشاد ہے: ہلاک ہوا دینار ودرہم کا بندہ اور چادر و شال کا بندہ، اگر اس کو یہ چیزیں دے دی جائیں تو خوش رہے اور اگر نہ دی جائیں (تو اپنا عہد) پورا نہ کرے” (صحیح بخاری)- صحابہ کرام رضوان اللہ علیہم اجمعین کی پاکیزہ زندگیوں کا تذکرہ پڑھیں تو وہ حکم الٰہی کے پابند رہتے تھے۔ جب اللہ کا حکم آجاتا تھا تو اپنے آپ کو حکم کی تعمیل میں، یکسر بدل ڈالتے تھے- اپنی خواہش کو اسلام کے سانچے میں ڈھال لیتے تھے۔ یہی وجہ ہے کہ سرزمینِ عرب پر تاریخِ انسانی کا عظیم ترین انقلاب برپا ہوا۔ بقول شاعر:

عرب جس پہ قرنوں سے تھا جہل چھایا

پلٹ دی بس اک آن میں اس کی کایا

رہا ڈر نہ بیڑے کو موجِ بلا کا

ادھر سے ادھر پھر گیا، رخ ہوا کا !

شرک کو آسمانی کلام میں ظلم عظیم کہا گیا ہے۔ اللہ تعالیٰ ہر گناہ معاف کرے گا لیکن شرک کو معاف نہیں کرے گا۔ آج اگر بحیثیت قوم، ہمارا بیڑا منجھدار میں پھنس ہوا ہے تو اس کی وجہ یہی ہے کہ ہم خود کو بدلنے پر تیار نہیں ہوتے بلکہ سب نے اپنی اپنی پسند کے بُت بنارکھے ہیں جن کی پرستش کے لاحاصل کام میں خود بھی ڈوبے ہیں اور دوسروں کو بھی ڈبو رہے ہیں۔

ہم کب تک اپنی خواہشات کی پیروی کرتے رہیں گے؟ ہم کب تک شخصیات کی پوجا کرتے رہیں گے؟ یہ دل جو اللہ کا گھر ہے، اسے ہر طرح کے بتوں سے پاک کرنا ہوگا، تب اس میں نورِ ایمان چمکے گا، ورنہ حال اس بت جیسا ہی ہوگا، جو سیلاب میں بہتا ہوا پڑوسی ملک سے یہاں آگیا ہے۔ خود بھی ڈوبا ہوا ہے اور اس سے وابستہ انسان بھی ڈوب رہے ہیں۔