دنیا دارالامتحان ہے، جہاں نیکی کی بھی آزمائش ہوتی ہے اور بدی و برائی کو ناپنے کے پیمانے بھی رب العالمین کے پاس موجود ہیں۔ ہم انسان جس راستے پر چلنا چاہتے ہیں عموماً اسی کی توفیق سے ہمیں نوازا جاتا ہے اور پھر جس راستے کو بھی ہم چنتے ہیں اس میں ہماری آزمائش ہوتی ہے کیونکہ دنیا جنت نہیں ہے کہ اچھائی کا پھل ہمیشہ اچھا ملے گا اور نہ ہی دنیا جہنم ہے کہ برائی کرنے والوں کو فوری سزا دے ڈالی جائے گی۔ دنیا تو گراف پیپر کی مانند ہے جس کے کالمز اور قطاریں نیکی یا بدی کا تناسب نوٹ کرنے پر مامور ہیں۔
اکثر دیکھنے میں آتا ہے کہ نیک فطرت لوگوں کو بہت ستایا جاتا ہے۔ لوگ سمجھتے ہیں ہم بڑے اسمارٹ اور بولڈ ہیں۔ اور بات مان لینے والوں، حیا و لحاظ رکھنے والوں کو خوب چیک کرتے ہیں۔ برداشت کی سطح کو چیک کرنے کے لئے بد لحاظی اور بے مروتی کی آخری سطح تک جاتے ہیں۔ یہ وہ لوگ ہوتے ہیں جو خود بلند قامت ہو نے کی بجائے ‘بلند قامت’ انسان کو اپنی سطح پر لانے کی کوشش کرتے ہیں اور بے حد کرتے ہیں۔ نتیجتاً، ایک خاموش تصادم، غیر روایتی جنگ اور کشمکش کا آغاز ہو جاتا ہے۔
نیک فطرت انسان کی طبیعت اباح کرتی ہے اس گھٹیا سوچ کو اپنانے پر۔ اس نچلی سطح کے ہتھکنڈے اپنانے پر۔ جس کے لئے اسے ‘سلو پوائزن’ دے کر تیار کیا جا رہا ہوتا ہے۔ دلچسپ پہلو یہ ہے کہ اچھائی سے حسد کرنے والے یہ افراد اچھائی کے ‘الہیٰ معیار’ کی بجائے ‘خود ساختہ معیار’ پر یقین رکھتے ہیں جو وقت کے ساتھ ساتھ بدلتا رہتا ہے۔
سر دست، خیر کو آزمانا آپ کے اپنے لئے گھاٹے کا سودا ہے۔ کیونکہ، ایک وقت آئے گا کہ افراد کے جمگھٹے میں ہوتے ہوئے بھی آپ خود کو تنہا محسوس کریں گے۔ اس وقت تک، آپ کے ہاتھوں ستائے گئے لوگوں میں سے جو خیر کے نمائندے ایمان کے بلند درجات پر ہوں گے وہی نیکی اور اچھائی پر استقامت رکھتے ہوں گے،اور وہی اس وقت سب کچھ بھلا کر یوسف علیہ کی مانند آپ کا سہارا بنیں گے اس وقت شرمندگی سے اعترافِ نیکی اور عظمت کے سوا آپ کے پاس کوئی چارہ نہ ہو گا۔ باقی، نیک فطرتوں کی عمومی تعداد بھی اس وقت آپ کے ساتھ حسن سلوک کا مظاہرہ کرے گی لیکن احساسات سے عاری۔ مشینی طرز پر۔
لہٰذا آپ جو کوئی بھی ہیں، پہلی فرصت میں نیکی کے معاون بن جائیں اور گناہ اور زیادتی کے معاون مت بنیں۔ خیر کے فروغ کے لئے۔ شرمندگی سے بچنے کے لئے۔ اور سب سے بڑھ کر اپنے بھلے کے لئے۔ کہ اپنا بھلا تو سبھی کو عزیز ہوتا ہے۔