تدریس صرف پڑھنے پڑھانے، لکھنے لکھانے، سیکھنے سکھانے یا پھرمعلومات کی ترسیل کا نام نہیں ہے۔ یہ علم و افکار کی تبلیغ و ترویج کا ایک مقدس وسیلہ ہے۔ تدریس کی حیثیت جب ایک پیشہ سے زیادہ باقی نہ رہے تب تبلیغ و ترویج جیسی اہم ترجیحات بھی نام نہاد معلومات کی ترسیل کی نذر ہو جاتی ہیں۔ تدریس کو صرف نوکری سمجھنے والے اساتذہ کے درمیان آج بھی ایسے کئی دیانت دار اساتذہ موجود ہیں جن کے دم سے درس و تدریس کا امتیازاور و قار باقی ہے۔ تدریس ایک پیشے کا نام نہیں بلکہ مختلف علوم، صلاحیتوں اور استعداد کے مجموعہ و یکجائی کا نام ہے۔ درس و اکتساب پرمعاشرے کے بدلتے مزاج اور جدت طرازیوں کا بہت زیادہ اثر ہوتا ہے۔ آج درس واکتساب ہی نہیں بلکہ زندگی کے بیشتر شعبے ٹیکنالوجی کے زیراثر آچکے ہیں۔ جدید تدریسی تقاضوں کی تکمیل اور طلبہ کی ٹیکنالوجی سے رغبت کو دیکھتے ہوئے ضروری ہے کہ اساتذہ جدید ٹیکنالوجی کو اپنے روزمرہ کے تدریسی افعال کا لازمی حصہ بنائیں۔ کمرہ جماعت کی افادیت اور تاثیر میں مسلسل اضافے کے خواہش مند اساتذہ کے لیے تودرس واکتساب میں جدیدٹیکنالوجی کا استعمال اور بھی اہمیت کا حامل ہے۔
ٹیکنالوجی کوصرف ’’سلکان کو ٹنگ‘‘ کی طرح استعمال کرنے کے بجائے اساتذہ اسے طلبہ سے بہتر روابط ہموار کرنے اور ان کی تعلیمی ضروریات کی تکمیل کے لیے موثر طریقے سے بروئے کار لائیں۔ تدریس میں ٹیکنالوجی کے استعمال سے میری مراد ہرگز یہ نہیں ہے کہ جس طرح سالہا سال سے روایتی کاپی پیسٹ کے طریقے ہمارے زیر استعمال رہے ہیں اسی طرح جدید ٹیکنالوجی کو بھی روایتی انداز (کاپی پیسٹ) میں مزید آگے بڑھایا جائے۔ جس طرح پاور (طاقت و عہدے)کا نشہ سیاست دانوں کو کرپٹ (مغرور و بدقماش) کردیتا ہے۔ پاور پوائنٹ کابے جا اور خراب استعمال بھی اساتذہ اور ان کی تدریس کو بے اثر کردیتا ہے۔ تدریس خاص طور سے اس وقت اوربھی بے وقعت ہوجاتی ہے جب اساتذہ کے پاس سلائیڈز تو موجود ہوں لیکن وہ ان سلائیڈز کی وضاحت او رتشریح سے قاصر رہیں۔ ٹیکنالوجی (پاور پوائنٹ و دیگر ای مواد) کو تحصیل، تفہیم اور ترسیل علم کا واحد و حتمی ذریعہ سمجھنے کے بجائے اساتذہ اسے تحصیل، تفہیم اور ترسیل علم کے کارگر وسیلوں میں سے ایک وسیلہ ہی تصور کریں۔ ٹیکنالوجی کے ذریعے تدریسی امور کو موثر و مثبت بنانے کے لیے ٹیکنالوجی سے مربوط نئے تدریسی امور و زاویوں پرنہ صرف سنجیدگی سے غور و خوض کی ضرورت ہے بلکہ انھیں تدریسی افعال میں عملاًنافذ کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
ڈیجیٹل درسیات کی تیاری و تدوین، ٹیکنالوجی کے جال میں گرفتار آج کے معاشرے میں اور بھی اہمیت اختیار کرجاتی ہے۔ اساتذہ کو خود اس بات کا جائزہ لینا چاہیے کہ جہاں، دنیاانٹرنیٹ کے ترسیلی جال میں سمٹ کر ایک چھوٹی سی بستی کی شکل اختیار کرچکی ہے،وہاں بچوں کے درس واکتساب کے کارگر وسیلے اورطریقہ کار کیا ہوں گے۔ نصابی کتب اوراسباق کی ڈیجیٹل پیش کش (جس پرآج ہم تکیہ کیے ہوئے ہیں) یہ درس و اکتساب کو کامیاب بنانے کے لیے نا کافی ہیں۔ طلبہ کے تعلیمی و اکتسابی تسلسل کو مجروح کیے بغیر ان کی تخلیقی صلاحیتوں کو بہتر مہمیز کرنے والے ڈیجیٹل پلاٹ فارمس ووسائل کی فراہمی درسیات، مواد، تکنیک ا ور طریقوں کی تخلیقی صورت گیری نہایت ضروری ہے۔ ہم روایتی کمرہ جماعت سے بلاک بور ڈکی جگہ اسمارٹ بورڈکی تنصیب، چاک اور ڈسٹرکے بجائے اسمارٹ ٹیچنگ ٹولس کو رواج دے کرہرگز مطمئن نہیں ہوسکتے ہیں کہ ہمارے کلاس رومز اسمارٹ ہوچکے ہیں۔ بھلا صرف ٹیکنالوجی و ٹیکنالوجیکل ٹولس کی فراہمی سے روایتی کلاس روم، اسمارٹ کلاس رومس میں کیسے تبدیل ہوسکتے ہیں۔ بچوں میں جان ہوتی ہے۔ ان میں محبت، نفرت کی پہچان پائی جاتی ہے۔ وہ بے حس و بے جان نہیں ہیں۔ ان کے اندر عقل، دانش، غیرت و حمیت، خوشی، مایوسی، رنج و غم، دوستی، دشمنی، سودوزیاں جیسے مختلف جذبات پائے جاتے ہیں۔ کمرہ جماعت کو لاکھ جدید تدریسی ٹیکنالوجیکل ٹولز(ٹیکنالوجی آلات) سے آراستہ و پیراستہ کردیاجائے، اساتذہ جب تک بچوں کی اکتسابی انفرادیت کو ملحوظ نہیں رکھیں گے، یہ ٹولس بچوں میں تحریک و ترغیب پیدا کرنے میں ناکام ثابت ہوں گے۔ اساتذہ جب تک بچوں کے جذبات واحساسات کی قدر نہیں کریں گے بچے درس و اکتساب کی طرف مائل نہیں ہوں گے۔ کیابے جان آلات و ٹولس،جان دار بچوں کی نفسیات کو سمجھ سکتے ہیں؟۔
روایتی کمرہ جماعت، جدید تعلیمی ٹولس وٹیکنالوجی سے نہیں بلکہ اساتذہ کی شفقت، محبت، دیکھ بھال، احساس ذمہ داری اور ان کی ترجیحات سے اسمارٹ کلاس روم میں تبدیل ہوگا۔ اساتذہ جدید ٹیکنالوجی اور جدید تعلیمی ٹولز پر ہی اکتفانہ کریں بلکہ بچوں کی نفسیات و جذبات سے کماحقہ واقفیت حاصل کرتے ہوئے ان کے قلب و ذہن میں گھر بنائیں تاکہ ان کی تدریس اسمارٹ کہلائے۔ مچھلی کے شکار کے لیے گَل پر کیچوے لگائے جائیں گے تو ہی مچھلیاں پکڑی جائیں گی۔ کیچوں یا آٹے کے لدوں کے بجائے لکڑی کے ٹکڑے یا پھر کچھ اور لگائیں گے تو یہ عمل بے سود ثابت ہوگا اور کوئی مچھلی ہاتھ نہیں لگے گی۔ یاد رہے! آپ کا سامنا کسی روبوٹ سے نہیں بلکہ اشرف المخلوقات سے ہے۔
درس و تدریس میں ٹیکنالوجی سے پیدا شدہ نئی صورت حال سے نبرد آزمائی کے لیے ہمیں ایسی درس گاہوں کی ضرورت ہے جو تخلیق، ایجاد اور دریافت کو فروغ دے۔ جدیدیت سے پیدا شدہ افراتفری پر حکمت و دانائی سے قابو پائے۔ جہاں کمزور روایات کی اصلاح ہو۔ متناسب ومکمل شخصیت کی تعمیر ہو۔ جدید طریقہ تعلیم سے مراد صرف درسیات(Pedagogy)کی تبدیلی ہی نہیں بلکہ ایک منفردمعیاری ،سائنسی نظام تعلیم کی ضرورت ہے۔ اساتذہ کو تعلیم میں ٹیکنالوجی کے استعمال اور تعلیمی ٹیکنالوجی سے متعلق اپنے افکار و نظریات میں مثبت تبدیلی لانے کی ضرورت ہے۔
آج ہم ایک ایسی دنیا میں سانس لے رہے ہیں جہاں ہر منٹ کوئی نہ کوئی تبدیلی رونماہورہی ہے۔ ایک منٹ میں انگنت ٹوئٹس کیے جاتے ہیں۔ فیس بک پیج یا کسی دوسرے سوشل میڈیا پلاٹ فارم پر ہر منٹ بے شمارناظرین اپنی حاضری درج کرواتے رہتے ہیں۔ سوشل میڈیا کے مختلف تعلیمی پلیٹ فارمز ترسیل علم میں نمایاں اہمیت کے حامل ہیں۔ اسکول اور کمرہ جماعت میں پئیر لرننگ جس طرح فروغ اکتساب میں معاون ثابت ہوتی ہے، ٹیکنالوجی بھی پئیر لرننگ کی طرح طلبہ کو ایک خود کار اکتسابی کلچر (اسکیومارفزمSkeuomorphism)فراہم کرتی ہے،جہاں طلبہ کسی تحدید و بندش کے بغیر تعلیمی نظام سے تعامل و ہم آہنگی پیدا کرتے ہوئے مسلسل سیکھتے رہتے ہیں۔ اس طریقہ کار کو ماہرتعلیم ڈونالڈ نارمیان (Donald Norman)نے اسکیو مارفزم سے تعبیر کیا ہے۔جدیدتعلیمی دنیا میں اسکیومارفزم تیزی سے مقبولیت حاصل کرنے والی ایک خاص اصلاح ہے۔ڈونالڈ نارمیان اس اکتساب کوتمام تحدیدات و بندشوں سے ماورا ء قراردیتاہے۔ اسکیومارفزم ایک ایسے تعلیمی ماحول کو وجود میں لاتی ہے جس کے زیر اثر طلبہ ایک خاص تعلیمی ماحول میں ٹیکنالوجی کی مدد سے ازخود سیکھنے لگتے ہیں۔