ایک بار پھر حکمران عوام کو سیلاب کی تباہ کاریوں سے ممکنہ بچاؤ کی تدابیر اختیار کرنے میں ناکام ہوگئے ہیں۔ ہمارے ہاں یہ چلن عام ہے کہ حسب روایت اپنی ناکامیوں، کو تاہیوں کا ملبہ دوسروں پر ڈال دیا جاتا ہے۔ اس باربھی ایسا ہی ہوا سیلاب، بارشوں سے ہونے والے جانی و مالی نقصانات کا ذمہ دار ایک دوسرے کو ٹھہرایا گیا یعنی حکومت وقت نے خود پر ہونے والی تنقید سے بچنے کے لئے اس کی ذمہ داری محکمہ موسمیات پر ڈال دی کہ انہوں نے پیشگی اطلاع نہیں دی تھی۔ حکمرانوں سے یہ سوال تو حق بجانب ہے کہ کیا وہ اس بات سے بے خبر ہیں کہ گذشتہ دہائیوں میں اب تک پاکستان میں تاریخ کے بڑے سیلاب آچکے ہیں کیا یہ عوامی حکمران اس بات سے بھی بے خبر ہی ہیں۔
ملک پچھلے سالوں میں عالمی موسمی تغیراتی انڈیکس میں پہلے نمبر پر آرہا ہے؟ یہ حکمران جو خود کو عوامی نمائندے کہتے نہیں تھکتے اگر واقعی عوام کی مشکلات اور تکالیف دور کرنے کو اپنی ذمہ داری سمجھتے تو کس طرح ان باتوں سے بے خبر ہوسکتے تھے؟اگر عوام کے خوان پسینے کی کمائی سے حاصل ہونے والی ٹیکس کی رقم کو بڑے بڑے شہروں میں پانی کے نکاس کے منصوبے شروع کرنے کے لئے استعمال کیا جاتا تو ل شائد آج اتنی تباہی و بربادی ہمارا مقدر نہ ہوتی۔ درحقیقت پاکستان میں گزشتہ 75 برسوں میں ایسے سیاست دان نا پید ہی رہے ہیں جو عوام کے دکھ درد اور تکالیف کو دور کرنا اپنا اولین فرض سمجھتے ہوں۔ اور ہر سال غریب عوام کو قدرتی آفات کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا جاتا ہے۔ اسلام نے سیاست کو لوگوں کے امور کی دیکھ بھال کرنا اور فرض قرار دیا ہے اور اس فرض میں کوتاہی یا ناکامی پر حکمرانوں کو قیامت کے دن اللہ کے غضب کا سامنا کرنا پڑے گا۔
یہی وجہ ہے کہ خلیفہ دوئم حضرت عمر فاروق رضی اللہ عنہ نے یہ فرمایا تھا کہ ’’اگر عراق کی زمین پر کوئی جانور بھی گر پڑا تو مجھے ڈر ہے کہ اللہ سبحانہ و تعالیٰ میرا محاسبہ کریں گے‘‘۔ عوام کو یہ جان لینا چاہیے کہ چاہے جمہوریت ہو یا آمریت دونوں میں حکمران خود کو عوام اور اپنے رب اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے سامنے جوابدہ نہیں سمجھتے۔ یہ صرف خلافت کا نظام ہے جس میں خلیفہ، عوام اور اللہ سبحانہ و تعالیٰ، دونوں کے سامنے جوابدہ ہوتا ہے اور اللہ کے سامنے جوابدہی سب سے سخت ہے۔ رسول کریم ؐنے فرمایاکہَ “اس شخص کا کوئی والی نہیں جو مسلمانوں کے امور کی ذمہ داری لیتا ہے اور انہیں دھوکہ دیتے دیتے مر جاتا ہے سوائے اس کے کہ اللہ اس پر جنت کو حرام کردیتے ہیں” (بخاری)۔ ملک میں سیلاب اب ہر سال معمول بن گئے ہیں اور یہ پیشن گوئی کرنا بھی مشکل ہوتا ہے کہ بارشوں کا تناسب کیا ہوگا اور اس کے نتیجے میں کتنا نقصان ہوسکتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ ماحولیاتی تبدیلیوں کے باعث جنم لینے والے خطرات ہیں جن کے اثرات مسئلے کو زیادہ گھمبیر اور غیریقینی بنا دیتے ہیں۔
حالیہ بارشوں نے ملک کے کئی شہری و دیہی علاقوں کو اپنی لپیٹ میں لیا ہوا ہے۔ بالخصوص بلوچستان میں لوگ سیلاب سے سب سے زیادہ متاثر ہوئے ہیں۔ پی ڈی ایم اے کے مطابق صوبے میں تقریباً چھ ہزار گھر منہدم ہوچکے ہیں یا انہیں نقصان پہنچا ہے۔ جبکہ مجموعی طور پہ ملک میں تین سو سے زائد افراد جاں بحق ہوچکے ہیں۔ اگرچہ بارشوں اور سیلاب کو روکا نہیں جاسکتا، لیکن یہ ممکن ہوتا ہے کہ بروقت اور ٹھوس انتظامی اقدامات کے ذریعے ان کی تباہ کاریوں کو محدود کیا جاسکے۔ پاکستان میں سیلابی صورتحال سے نمٹنے کے لیے وفاقی اور صوبائی سطح پر متعدد اداے قائم ہوچکے ہیں، لیکن ان کے پاس کوئی طویل المیعاد حکمت عملی اور منصوبے موجود نہیں ہیں، جس کا نتیجہ ہے ہر سال کئی انسانی جانیں ضائع ہوجاتی ہیں، مکانات کو نقصان پہنچتا ہے، انفراسٹرکچر متاثر ہوتا اور معیشت کو دھچکا لگتا ہے۔
حالیہ برس سیاسی عدم استحکام نے بھی مسئلے کو پس پشت ڈال دیا ہے، اور سیاستدان اس پر کوئی بات کرتے ہی نظر نہیں آتے۔ سیلاب کی زد میں آئے ہوئے علاقوں کی مختلف ویڈیوز دیکھ کر دل دہل جاتا ہے، لوگوں کی بے بسی دیکھ کر رونا آتا ہے۔ادھر ہمارے وزیرِ اعلیٰ پنجاب ہیں جو لاہور میں بیٹھے ہوئے احکامات صادر کر رہے ہیں لیکن سوال یہ ہے کہ کیا وزیرِ اعلیٰ کو سیلاب زدگان کے درمیان نہیں ہونا چاہیے تھا وہ اپنا کیمپ آفس جنوبی پنجاب میں لگاتے اور سارے معاملات کو دیکھتے۔ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے ممبر اسمبلی بھی مفاد پرست نکلے ہیں اب تک انہیں چیخ چیخ کر اسمبلیوں میں دہائی ڈال دینی چاہئے تھی۔ جنوبی پنجاب سے تعلق رکھنے والے بڑے بڑے سیاستدان کہیں دکھائی نہیں دے رہے، کچھ سماجی اور فلاحی ادارے یا پھر پاک فوج کے جوان کام کرتے ہوئے نظر آرہے ہیں۔
یوں تو سابق وزیر اعظم چیئرمین تحریک انصاف عمران خان فلاحی کاموں کے حوالے سے کافی مشہور ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ اس وقت وہ بھی اپنی سیاسی کمپین میں مصروف نظر آتے ہیں وہ اس وقت ملک کو غلامی سے آزاد کروا رہے ہیں ان سے بھی یہ سوال کرنا حق بجانب ہے کہ خیبر پختونخوا، گلگت بلتستان، بلوچستان اور پنجاب میں ان کی حکومتیں ہیں پھر وہ کونسی آزادی اور غلامی کی بات کرتے ہیں۔ انہوں نے ایک بار بھی ان سیلاب متاثرین کے حوالے ہمدردی کا کوئی لفظ بھی نہیں کہا جن پر قیامت صغریٰ گزر گئی جو بے یارو مددگار لٹے پٹے، بے آسرا کھلے آسمان تلے بیٹھے ہیں اور افسوس ہماری سیاسی جماعتوں اور سیاسی رہنمائوں کو سیاست سیاست کھیلنے سے فرصت نہیں۔ وہ ایک دوسرے سے باہم دست و گریبان ہیں، اور ہمارے قومی سلامتی کے اداروں کے خلاف نوجوانوں کو ورغلا کر آخر دنیا کو کیا پیغام دینا چاہتے ہیں۔ جلسوں و احتجاجی مظاہروں میں پاور شو کرنے کے بجائے اگر تھوڑی دیر کے لئے ان سیلاب زدگان کے لئے کچھ کر لیا جاتا تو یہ زیادہ اچھا نہ ہوتا۔ چیئرمین تحریک انصاف کو چاہئے تھا کہ کوئی تقریب منعقد کرتے جس میں لوگوں کو دل کھول کر کم از کم خیرات دینے کا ہی بول دیتے۔
اب سوال یہ ہے کہ کیا یہ علاقے پاکستان میں شامل نہیں؟ کیا ان لوگوں کا مقدر صرف پسماندگی، غربت اور بے چارگی ہے؟ کاش بے حس مقتدر طبقہ ان کے بارے میں سوچے اور خوف خدا کرے لیکن اسے ان باتوں کی کہاں فکر ہے، اس کی تو ترجیحات ہی اور ہیں۔سیلاب کی وجہ سے جس طرح کی تباہ کاریاں اب ہو رہی ہیں ماضی میں اسکی مثال نہیں ملتی لیکن پرنٹ میڈیا پر آج بھی سرخیاں سیاستدانوں کی چھپی ہوئی ہیں، الیکٹرانک میڈیا میں اُن علاقوں کو کوریج نا ہونے کے برابر دی جا رہی ہے۔ وفاقی حکومت ہے کہ شہباز گل اور ان جیسے دوسرے لوگوں کو گرفتار کرنے میں مصروف ہے جبکہ پنجاب حکومت اُن کو بچانے میں مصروف ہے۔ لیکن کسی نے سچ کہا تھا کہ سیاست کے سینے میں دل نہیں ہوتا۔