تونسہ شریف کا نام پہلی بار ڈرامہ سیریل عہد وفا میں مزاحیہ کردار گلزار احمد کی زبانی سنا تھاجس میں وہ اپنے مخصوص انداز میں اپنا تعارف کرواتا ہے کہ میرا تعلق بستی ملوک تحصیل تونسہ شریف ضلع ڈیرہ غازی خاں سے ہے اور دوسری بار اب سیلابی صورتحال میں سننے میں آرہا ہے کہ تحصیل تونسہ مکمل طور پر ملیا میٹ ہوچکی ہے دیہاتوں کے دیہات صفحہ ہستی سے مٹ چکے ہیں یہ صرف ایک تحصیل یا علاقے کا مسئلہ نہیں رہا بلکہ اس وقت جنوبی پنجاب، بلوچستان اور سندھ کا بڑا حصہ سیلاب کے رحم و کرم پر ہے اور ایسا کوئی پہلی بار نہیں ہوا بلکہ ہر چند سال بعد جب بارشیں معمول سے کچھ زیادہ ہوجائیں تو مذکورہ علاقے زیر آب آجاتے ہیں اور زندگی بھر کی جمع پونجی پانی کی نظر ہوجاتی ہے حیران کن بات یہ ہے کہ یہی وہ علاقے تھے جن کے بارے میں چند ماہ پہلے دیکھنے کومل رہاتھا کہ بارشیں نہ ہونے کی وجہ سے ہر طرف قحط کے ڈیرے ہیں تالاب خشک ہوچکے انسان اور جانور پیاسے مر رہے ہیں اور اب وہی انسان اور جانور ڈوب کر مر رہے ہیں اس کی دو بنیادی وجوہات ہیں پہلی تیزی کے ساتھ بدلتی ہوئی دنیا کی موسمی صورتحال (Climate Changes)اور دوسری ہے ہماری نااہلی بدلتی ہوئی موسمی صورتحال صرف پاکستان کا ہی مسئلہ نہیں ہے بلکہ یہ پوری دنیا کا مشترکہ مسلہ ہے گلیشئیر بڑی تیزی سے پگھل رہے ہیں زرخیز میدان صحراؤں میں اور صحرا سرسبز میدانوں میں تبدیل ہورہے ہیں سرد علاقے گرم اور گرم علاقے مزید گرم ہوتے جارہے ہیں۔
مجموعی طور پر ایک صدی کے دورا ن دنیا کا درجہ حرارت 1.9فارن ہائیٹ تک بڑھ چکا ہے (Claimate Change) اس وقت دنیا بھر کے میڈیا کی شہ سرخیوں میں جگہ بنائے ہوئے ہے یورپ اور امریکہ میں بڑھتی ہوئی گرمی کے باعث جنگلات میں آگ کا بھڑک اٹھنا معمول کی بات بن چکا ہے یہ ایک الگ بحث ہے کہ دنیا بھر کے جنگلات میں آگ موسمی تغیر کے باعث سلگتی ہے یا جدید جنگی ہتھیار کے طور پر سلگائی جاتی ہے یا شاید اس سے بھی بہت آگے کی بات ہے۔ اور یہ ایسے مسائل ہیں جن سے نمٹنا کسی ایک علاقے یا ملک کے بس کی بات نہیں بلکہ پوری دنیا کو مل بیٹھ کر اس کا حل نکالنا ہوگا۔
ان سیلابوں اور طوفانوں کی دوسری بڑی وجہ ہماری اپنی ناقص حکمت عملی ہے نکاسی آب کا کوئی نظام ہی موجود نہیں ہے ایک لمحے پیاسے مر رہے ہوتے ہیں تو دوسرے لمحے ڈوب کر مررہے ہوتے ہیں جبکہ دنیا جان چکی ہے کہ پانی ہی زندگی ہے اور آنے والے وقتوں میں سرحدوں اور فضاؤں کے مسائل کی بجائے خوراک اور پانی کے مسائل ہونگے جس قوم کی خوراک اور پانی پر دسترس ہوگی وہی زندہ رہ پائے گی ہمیں بھی چاہیے کہ ان مسائل کی طرف توجہ دیں اور ان کا پائیدار حل نکالیں پاکستان شاید دنیا کا واحد خطہ ہے جہاں اللہ کی دی ہوئی ہر نعمت موجود ہے فلک بوش پہاڑ، سرسبز میدان اور چاندی کی چمک جیسے وسیع وعریض صحرا موجود ہیں ہم پہاڑوں سے نکلنے والے پانی کو ڈیم بنا کر کنٹرول کر سکتے ہیں جس سے بجلی کی کمی بھی پوری ہوسکتی ہے اور زراعت کے لیے بھی پانی محفوظ ہوجائے گامیدانی علاقوں میں نہری پانی کی منصفانہ تقسیم سے پانی کی قلت کو ختم ہوسکتی ہے اور سیلابی صورتحال سے بھی بچا جاسکتاہے صحرائی علاقوں میں زیر زمین ٹینک بنا کر پانی محفوظ کیا جاسکتاہے اور اضافی پانی کو گہرے کنوئیں بنا کر زیر زمین بھیجا جا سکتا ہے جس سے پینے کا پانی صاف اور سطح بھی بلند ہوجائے گی۔ مگرافسوس کہ ہمارے ہاں ایسے منصوبے سوچے بھی نہیں جاسکتے جبکہ ہمارا ہمسایہ ملک بھارت ان منصوبوں پر تیزی سے کام کررہا ہے۔ ہم قومی مفادات کے سامنے ذاتی مفادات کو ترجیح دیتے ہیں سیاسی مخالفت کو ہی ریڈ لائن سمجھ بیٹھتے ہیں ایسا ہی کچھ جنوبی پنجاب کے ساتھ ہورہا ہے بارشوں اور دریاوں کے پانی سے شاید اتنی تباہی نا ہوتی جتنی ناقص حکمت علمی کی وجہ سے ہوتی ہے اور ہر تین چار سال بعد اتنے بڑے پیمانے پر سیلاب آتے ہیں جن کا کوئی ٹھوس حل نہیں نکالا جا رہا اگر ہم صرف بلوچستان کے ضلع نصیرآباد میں آنے والے سیلاب کا جائزہ لیں کہ ہر سال اتنے بڑے پیمانے پر سیلاب کیوں آتاہے تو ہمیں بخوبی معلوم ہوگا کہ کس طرح ہماری اپنی نااہلی کی وجہ سے ہر بار جب بارشیں معمول سے کچھ زیادہ ہوجائیں تو شہر سمیت پورے علاقے کا ڈوبنا ہی مقدر ٹھہرتا ہے جبکہ موثر حکمت عملی اپنا کر اس سے بچا جاسکتاہے۔
دریائے لہڑی جو کوہ وسطی اور کوہلو کے پہاڑوں سے نکلتا ہے جس کے پانی کا مکمل انحصار صرف بارشوں پر ہے یہ دریا مختلف پہاڑی دروں سے ہوتا ہوا لہڑی شہر کے شمال مشرقی جانب گوگھی کے مقام پر تین حصوں میں تقسیم ہوجاتا ہے جسے گوگھی ڈسٹریبیوشن اسکیم کہاجاتا ہے اس میں پہلا حصہ اسٹیٹ فیڈر سے لہڑی ندی کا ہے جو تقریباََ 72کلومیڑکا رقبہ طے کرتی ہے اور 32کے قریب دیہاتوں کی کی پیاس بجاتی ہے جو کہ بدقسمتی سے سیاسی انا یا محکمہ نہر کی نااہلی کی وجہ سے عرصہ 30سال قبل اس ندی کو بند کردیا گیا تھا جس کی وجہ سے دریائے لہڑی سے نکلنے والی دوسری دو ندیوں خانواہ اور دریائے لانڈھی(ماہی واہ) میں پانی حجم سے زیادہ چلا جاتاہے جس سے نصیرآباد شہر کا ڈوبنا یقینی ہوجاتا ہے بزرگوں سے سن رکھا تھا کہ پانی سو سال بعد بھی اپنا راستہ نہیں بھولتا یہی حال نصیرآباد شہر کے ساتھ ہوتا ہے حکومت کو چاہیے اسٹیٹ فیڈر لہڑی ندی کو بحال کیا جائے جس سے 32کے قریب موضعات جو ویران ہوچکے ہیں آباد ہوجائیں گے اور پانی کی منصفانہ تقسیم سے نصیرآباد سمیت دیگر علاقوں سے سیلاب کا خطرہ ہمیشہ کے لیے ٹل جائے گا۔
ایسا حال ہی ہم نے کراچی شہر کے ساتھ کیا ہے ندی نالوں کی جگہ پر لینڈ مافیانے چائینہ کٹنگ کر کے پلازے اور کالونیاں آباد کر رکھی ہیں بارش کے پانی کی نکاسی کا نظام ہی درہم برہم ہوا پڑا ہے جس کی وجہ سے بارش کے بعد بھی ہفتہ بھر پانی نہیں نکل پاتا لینڈ مافیا نے تو اسلام آباد جیسے شہر کو معاف نہیں کیا ایسا شہر جو بنا ہی پہاڑی ڈھلوانوں پر ہے مگر ہماری کمال مہارت سے اب پہاڑوں پر بھی سیلاب آتے ہیں اور ہر سال آتے ہیں مگر کسی کے کان پر جوں تک نہیں رینگتی چند دن شور و غل ہوتاہے پھر اندھیری رات۔
اگر ہم چاہتے ہیں ہیں موسمی تغیر کے ساتھ آنے سیلابوں اور طوفانوں سے بچا جاسکے خوراک اور پانی کے بحران پر قابو پایا جاسکے تو پھر ہمیں موثر حکمت عملی کا مظاہرہ کرکے پانی کو ہر ممکن حد تک محفوظ کرناہوگا جس کے لیے پہاڑی علاقوں میں ڈیم، میدانوں میں دریائی اور نہری نظام کی فعالیت اور صحراؤں میں زیر زمین پانی کی اسٹوریج کے سسٹم کی طرف بڑھنا ہوگا اور ہاؤسنگ سوسائٹی مافیا کو کنٹرول کر کے پانی کی گزر گاہوں کوخالی کروا کر ندی نالوں میں ہی تبدیل کرنا ہوگا اور اس کے ساتھ ساتھ ہمیں جنگلات کی طرف بڑھنا ہو گا شجر کاری مہم کو مزید تیز اور شفاف بناناہوگا جس سے ماحولیاتی آلودگی پر قابو پانے میں مدد ملے گی۔