بے حد مصروف اور مشکلوں سے بھری اس زندگی میں کچھ اپنے لیئےاور بہت کچھ دوسروں کے لئے کرنا ضروری ہے اور اس دور میں جب انسان انسان کا دشمن بن رہا ہے حق دینا تو دور بس نہیں چلتا زندہ آدمی ہی کھا جائیں۔ وقت کی اس دوڑ میں اور دورحاضرہ پر نظر ڈالیں تو نہ صرف گھروں شہروں ملکوں بلکہ پوری دنیا کے حالات خراب ہیں۔
اسی طرح آج پاکستان کا بھی ایک گھر کی طرح برا حال ہے یہاں بھی بے حس اور لالچی لوگ رہتے ہیں جو نہ صرف سازوسامان بیچتے ہیں بلکہ اپنے ضمیر اور ایمان کا سودا بھی کرتے ہیں جس ملک میں حکومت کرتے ہیں جس ملک کے قانون بناتے اور توڑتے ہیں جس ملک سے پہچانے جاتے ہیں جس ملک کے پیسوں سے اپنے اولادوں کو پروان چڑھاتے ہیں ان کے مستقبل کے لئےسونے چاندی ڈالر جمع کرتے ہیں۔افسوس کی بات یہ ہے کہ یہ وہاں نہ خود رہنا پسند کرتے ہیں نہ اپنے بچوں کو رکھنا پسند کرتے ہیں کیوں کے وہ جانتے ہیں کے اپنے ملک کا معیار وہ کتنا خراب کرچکے ہیں۔
ان سب کے باوجود ہم جیسی بےوقوف عوام چند جذباتی نعروں اور دو تین متاثر کن ادکاریوں سے متاثر ہوکر انصاف پسند ہونے کے بجائے شخصيت پسند ہو جاتے ہیں یہی وجہ ہے کے حکمران اپنی شخصيت چمکا کے ملک کو گندا اور کنگلا کر کے پتلی گلی سے جہاز میں اڑ جاتے ہیں۔ پیچھے رہے جاتی ہے مظلوم عوام اور بکاؤ نعرے۔
اس وقت جو ملک کا حال ہے وہ کسی سے چھپا نہیں ہے کچھ اسے اندرونی دیمک کھا گئی اور کچھ بیرونی سازش۔ حالیہ بارشوں کے پیش نظرسندھ، پنجاب اور بلوچستان میں جو تباہی ہوئی وہ قدرتی تھی ٹھیک ہے ہم قدرتی آفات یا موسم کے ردوبدل کو روک نہیں سکتے مگر اس کا مطلب یہ بھی نہیں کے ہاتھ پر ہاتھ رکھ کر بیٹھے رہیں۔ کوئی حل نکالیں کوئی منصوبہ ہو یا ان ڈوبے ہوؤں کو نکالا جائے نہ کے باقی کی طرح وہ بھی مر جائیں۔ جس طرح گھر کے سرپرست رہنے کے لئے مضبوط گھر خوراک لباس کا انتظام کرتے ہیں گھر محلے سے اونچے بناتے ہیں تاکہ کئی سالوں تک باہر کا پانی گھر میں داخل نہ ہو۔ لباس موسم کے حساب سے لاتے ہیں حلال اور صحت بخش خوراک بھی دیتے ہیں۔ اسی طرح کسی بھی ملک، صوبے یا شہر کے لئے بھی ایک ذمہ دار حاکم کو یہی کرنا چاہے نہ کہ وہ اس چیز کا رونا رووں کہ میرے اختیار میں کچھ نہیں اگر آپ کے اختیار میں کچھ نہیں تو چھوڑ دیجئےکرسی بیٹھ جائیں اپنے گھر جا کر اور موقع دیں بااختیار قیادت کو جو شہر بھر میں ایسے کام کرتے نظر آئیں جیسے اپنے گھر میں کام کر رہے ہوں۔
شکر ہے اس پاک ذات کا جو ابھی بھی ایسے لوگ ہم میں موجود ہیں جو کبھی سڑکوں پر پانی صاف کرتے نظر آتے ہیں تو کبھی مچھر مار اسپرے کبھی گھروں میں خشک راشن یا تیار کھانا تقسيم کرتے ہیں کبھی لوگوں کو بارش کے پانی سے نکال رہے ہوتے تو کبھی نالے صاف کررہے ہوتے ہیں کبھی کسی جابر زمیندار سے غریب کے پیسے نکلواتے ہیں کبھی ٹریفک جام میں کھڑے سمت بتا رہے ہوتے ہیں تو کبھی بے روزگاروں کو کاروبار کراتے نظر آتے ہیں سب سے بہترین صفت یہ ہے کہ رنگ ونسل اورفرقہ و لسانیت سے پاک ہے۔ یہ لوگ ابھی اقتدار میں نہیں ہے لیکن ملک کی خدمت کا کام کئی سالوں سے بغیر معاوضہ بغیر لالچ کے سرانجام دے رہے ہیں جی ہاں آپ ٹھیک سوچ رہے ہیں یہ وہی جماعت ہے جو صرف ملک کی خدمت ہی نہیں بلکہ نئی نسل کی اسلامی تربیت میں بھی مصروف عمل ہیں اس جماعت کے بچے، بوڑھے، جوان اور خواتیں سب پڑھے لکھے باشعور لوگ ہیں یہ لوگ دوا کے ساتھ دعا بھی کرتے ہیں۔ حالیہ بارشوں میں اس جماعت نے نہ صرف خود کام کیا بلکہ دوسری جماعتوں کو بھی مجبور کردیا کہ وہ چاہے کام نا بھی کریں کم از کم اداکاری ہی کر لیں۔
بہرحال ہر جگہ یہ ترازو والے ہی نظر آرہے ہیں آج کل جہاں دیکھو جس کو دیکھو بس ترازو ترازو کی رٹ جی جناب یہ گھر کے اس فرد کی طرح ہیں جسے لوگ ہر کام کے لئے پکارتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ دیانتداری سے کام کرے گا۔ اسی لئے ہر مشکل میں ہر میدان میں جماعت اسلامی ہی نظر آتی ہےبچہ بچہ کہتا ہے کیا؟ ارے یہی کہ “حل صرف جماعت اسلامی” پچھلے دنوں ایک بزرگ خاتون سے ملاقات ہوئی کہنے لگی ہماری طرف تو کمر تک پانی تھا گھر سے نکلنا مشکل ہوگیا تھا اللہ بھلا کرے ان لڑکوں کا جو بارش میں ائے اور ہمیں کھانا دیا ہمارے گھروں اور گلیوں سے پانی نکالا۔ میں نے پوچھا کس جماعت سے تعلق تھا ان کا؟ کہنے لگیں کسی جماعت کے نہیں تھے وہ تو سب کی مدد کر رہے تھے نہ مذہب پوچھتے تھے نہ زبان کی کوئی تفریق ہاں البتہ ان کی قمیض پر ترازو بنا ہوا تھا۔
جی ہاں ! یہ ہے ترازو والے جماعت اسلامی کے جیالے، ابھی کچھ دن پہلے جماعت اسلامی کا بہت بڑا جلسہ ہوا بھئی کیا جلسہ تھا ان کے لیڈر خود تلاوت قرآن پاک کر رہے تھے معلوم ہوا بندہ حافظ قرآن ہے واہ بھئی جس جماعت کا لیڈر دل میں قرآن محفوظ کئےہوئے ہو اس کی جماعت کیسی ہوگی،جلسے کے اختتام پر حافظ صاحب نے بہت ہی خوبصورت دعا بھی کروائی۔ لیکن ایک عجیب بات تھی ان کے لوگوں میں اختتام پر ایک اعلان ہوا کے جلسہ گاہ کی صفائی کریں اور اپنے شہر کو صاف رکھیں ارے بھئی ہوگیا جلسہ دوسری جماعتوں کی طرح آپ بھی گھر جائیں آرام کریں۔
یہ ترازو والے اب چھا گئے ہیں دلوں پر بھی اور کراچی پر بھی اب ہر شخص کی زبان پر صرف ترازو ہی ہے اور جو ابھی تک خاموش ہے ان کے دل تو مان گئے ہیں مگر زبان ساتھ نہیں دے رہی لیکن وہ دن دور نہیں جب ترازو والے یعنی جماعت اسلامی اپنے میئر کے ساتھ مل کر کراچی کو پھر سے روشنیوں اور امن کا شہر بنائے گی تو یہ لوگ بھی کہے اٹھیں گے کے جی ہاں حل صرف جماعت اسلامی۔ نیت میں کھوٹ ہوتو ایمان خراب ہوجاتا ہے۔ اور ووٹ میں کھوٹ ہو تو نظام خراب ہوجاتا ہے۔ تو اپنے ووٹ کا صحیح استعمال کریں ترازو پر مہر لگائیں تاکہ تول کر اپنے حقوق لے سکیں اور کھل کر کہیں. یہ لو ترازو تول کے دیکھو کس کا پلڑا بھاری ہے۔