ابھی حال ہی میں چین کی جانب سے ایک قومی پلان سامنے آیا جسے جان کر حیرت بھی ہوئی اور خوشی بھی ہوئی کہ قومیں کیسے اپنی آئندہ نسلوں کی تربیت کے لیے فکرمند ہیں اور کیسے انہیں دنیا میں ایک ممتاز مقام پر دیکھنا چاہتی ہیں۔ چین کی معاشی ترقی کے حوالے سے پہلے بھی کئی مرتبہ لکھا جا چکا ہے اور دنیا جانتی ہے کہ آج کا چین دنیا کی دوسری بڑی معیشت ہے لیکن چین کے سماجی پہلووں سے آگاہی بھی اُسی قدر لازم ہے تاکہ چینی معاشرے کو صحیح معنوں میں سمجھا جا سکے۔تو آج اُس قومی منصوبے کا ذکر ہو جائے جو کہتا ہے کہ چینی سماج میں سائنس ٹیکنالوجی کو مقبول کیا جائے گا۔ جی ہاں، حال ہی میں متعارف کروائے جانے والے اس نئے قومی منصوبے کے مطابق، چین 2025 تک اپنی آبادی کے کم از کم 15 فیصد میں سائنسی خواندگی حاصل کرنے کا خواہاں ہے۔یہاں پر سائنسی خواندگی سے مراد سائنس کی اصل روح کا ادراک، بنیادی سائنس اور سائنسی طریقوں کا علم، اور سائنس کو تجزیے اور مسائل کے حل پر لاگو کرنے کی صلاحیت ہے۔
یہ بات قابل ذکر ہے کہ چین میں سائنسی خواندگی کو حالیہ عرصے میں مسلسل فروغ ملا ہے۔ سائنسی طور پر خواندہ چینی شہریوں کا تناسب 2020 میں 10.56 فیصد تھا، جو ملک کے 13ویں پانچ سالہ منصوبہ کی مدت (2016-2020) میں مقرر کردہ 10 فیصد ہدف سے زیادہ ہے۔یوں چینی آبادی سائنسی طور پر مزید خواندہ ہوتی جا رہی ہے، زیادہ سے زیادہ لوگ سائنس کو سمجھنے اور زندگی اور کام سے وابستہ مسائل کو حل کرنے کے لیے سائنسی رویّوں کے اطلاق کو وسعت دے رہے ہیں۔ شہروں کی بات کی جائے تو شنگھائی، بیجنگ اور تھین جین کو سرفہرست تین شہروں کے طور پر شمار کیا جاتا ہے، جہاں سائنسی طور پر خواندہ افراد کا تناسب دیگر شہروں کی نسبت قدرے بلند ہے۔سائنسی خواندگی کے فروغ میں نمایاں
کامیابیوں کے باوجود چینی حکام ملک کی شہری اور دیہی آبادی کے درمیان سائنسی خواندگی میں عدم مساوات، مرد و خواتین کی ڈیمو گرافکس اور معیاری تعلیم تک غیر متوازن رسائی، کو بدستور بڑے چیلنجز شمار کرتے ہیں اور سائنسی خواندگی کی راہ میں بڑی رکاوٹیں قرار دیتے ہیں جن کا دور کیا جانا ضروری ہے۔ اس سے قبل چین کی جانب سے عام لوگوں کی ڈیجیٹل خواندگی اور مہارتوں کو بہتر بنانے کے لیے بھی ایک مہم کامیابی سے لانچ کی جا چکی ہے۔ اس تیس روزہ طویل ایونٹ کا اعلان 5ویں ڈیجیٹل چائنا سمٹ کی افتتاحی تقریب کے دوران کیا گیا۔ مہم کے دوران متعدد سرگرمیوں کا انعقاد کیا جائے گا جن میں فورمز، نمائشیں اور ڈیجیٹل مہارتوں اور تعلیم پر لیکچرز وغیرہ شامل ہیں۔ یہ بات قابل ذکر ہے کہ چین کے تمام سرکردہ ادارے اس مہم میں شریک ہیں جن میں دفتر برائے مرکزی سائبر اسپیس افیئرز کمیشن، متعدد وزارتیں، فیڈریشنز اور ادارے شامل ہیں۔ان تمام اداروں کے تعاون سے یہ مہم ڈیجیٹل وسائل کی فراہمی کو بڑھانے اور ڈیجیٹل تعلیمی نظام کو بہتر بنانے میں مدد کرے گی۔
دوسری جانب دنیا بھر میں اس بات کا ادراک بڑھ رہا ہے کہ عوامی سائنسی خواندگی طویل مدتی سماجی اور اقتصادی ترقی کا بنیادی جزو ہے۔ مشی گن یونیورسٹی کی ایک تحقیق کے مطابق امریکہ جیسے ترقی یافتہ ملک میں تقریباً 28 فیصد امریکی بالغ افراد سائنسی طور پر خواندہ کہلانے کے اہل ہیں، جو کہ برطانیہ اور جاپان جیسی دیگر ترقی یافتہ اقوام کی عام بالغ آبادی کے مقابلے میں قدرے زیادہ ہے۔ چین نے اس ضمن میں عوامی سائنسی خواندگی کو بہتر بنانے کے لیے اپنی پالیسیوں اور قانونی ڈھانچے کو بہتر کیا ہے۔ 2002 میں، ملک کی جانب سے سائنسی خواندگی کو فروغ دینے کے لیے مخصوص قوانین تشکیل دیے گئے۔ چار سال بعد، ریاستی کونسل نے ایک دستاویز جاری کی، جس کا مقصد 2020 تک ملک کی 10 فیصد آبادی کو سائنسی طور پر خواندہ بنانا اور سائنس کو قومی پالیسی کے طور پر مقبول بنانا شامل تھا۔ ان کوششوں کے ثمرات یوں برآمد ہوئے کہ آج ملک میں پیشہ ورانہ اور سائنس کو مقبول بنانے والے جز وقتی کارکنوں کی تعداد 20 لاکھ تک پہنچ چکی ہے۔ اس کے علاوہ، چین بھر میں اعلیٰ معیاری سائنس اور ٹیکنالوجی عجائب گھر، موبائل سائنس اور ٹیکنالوجی عجائب گھر، سائنس کی مقبولیت کے کاروان اور دیہی سائنس کی مقبولیت کے مراکز کا جال بچھایا گیا ہے۔ یوں، چین کی کوشش ہے کہ ملک میں سائنسی رویوں کو بھرپور انداز سے پروان چڑھایا اور ملک کی اقتصادی سماجی ترقی کی کوششوں میں سائنسی طور پر خواندہ افراد کی شمولیت کو مزید آگے بڑھایا جائے۔