عشق و آزادی بہار و زیست کا ساماں ہے
عشق میری زندگی آزادی میرا ایمان ہے
عشق پے فدا کر دوں میں اپنی ساری زندگی
اور آزادی پہ میرا عشق بھی قربان ہے
ہم نے اپنا 75واں یوم آزادی منایا ہے ہر طرف ڈائمنڈ جوبلی کی تقریبات کا اہتمام زور و شور سے جاری تھا۔ جھنڈیاں پٹاخے سبز لباس ٹوپیاں اسٹیکرز اور رنگ برنگی اشیا دھڑا دھڑ فروخت ہوتی رہیں۔
دل لرزتا رہایہ سوچ کر۔ کہ ہر چودہ اگست کی مانند کیا اس بار بھی ایک شاندار دن آئے گا تقاریر ہونگی قائدین پاکستان کو سلامی دی جائے گی اور اگلے دن جشن آزادی کے پھول جھنڈیاں گلی کوچوں میں پتنگوں کی طرح بکھری ہونگی اور ہماری عظمت کا نشان جھنڈا سال بھر کے لیے فضاؤں اور ہواؤں کی نظر کر دیا جائے گا کہ اڑے، پھٹے پھیکا پڑ جائے۔ مگر ہمیں فرصت ہی کہاں ہو گی کہ اسکو پروٹوکول دے سکیں۔
لیکن اب ایسا نہیں ہونا چاہیے اب سنبھل جانا چاہیے۔ اس زمین کی ہر قوم تیس سے چالیس کی ہو کر سنبھل گئی۔ اقبال نے کہا تھا
گراں خواب چینی سنبھلنے لگے
ہمالہ کے چشمے ابلنے لگے
اور وہ بنگلہ دیش ہمارے وجود کا حصہ ہم سے الگ ہو کر تو وہ بھی سنبھل گیا ہے۔
ہم کب عقل و شعور کی منازل طے کرنے والے ہیں۔
کب تک ہم نالوں کے ڈھکن کوڑا کرکٹ کی صفائی کے لیے سوال کریں گے
کب تک ہم سفارش اور رشوت سے پاک دفاتر کے خواب دیکھیں گے۔
کب تک ہمارے دیہات سیلاب کی نذر ہوتے رہیں گے
کب تک آخر کب تک ہم پانی میں تیرتی نعشوں کا ماتم کرتے رہیں گے۔
کب تک اس ملک کے پانیوں کے لیے ڈیم کی خواہش کرتے رہی گے۔
کب تک غربت اور بے روزگاری ہمارے کچے کوٹھوں کی بنیادیں ہلاتی رہے گی
ہم کب تکے گرتی ہوئی چھتوں کے نیچے سے معصوم کلیوں کے مسلے جانے کا صدمہ سہتے رہیں گے۔
اسلام کے نام پر حاصل کیے اس ملک میں میری بیٹیوں کی عزت محفوظ نہیں ، میرے نوجوانوں کے پاس روزگار نہیں
لہو برسا، بہے آنسو، لٹے رہرو، کٹے رشتے
ابھی تک نامکمل ہے مگر تعمیر آزادی
اور میرے وطن کے ان سیاست دان، کہ جو حکمران تو پاکستان کے ہیں مگر کا ان 75سالوں میں ایک ہی پسندیدہ کھیل رہا ہے
آؤ کھیلیں کرسی کرسی
تیری کرسی میری کرسی
میری کرسی تیری کرسی
آؤ کھیلیں کرسی کرسی
اس کرسی اور اقتدار کے کھیل نے میری قوم کو بستر مرگ تک پہنچا دیا ہے۔ اے قوم کے حکمرانوں تمہیں خدا کا واسطہ ہے
بس کر دو یہ اقتدار کا کھیل، یہ کرسی کا ڈرامہ، یہ دھوکہ دہی، یہ ریاکاری، اپنوں میں رہ کر غیروں کی وفاداری، جھوٹے وعدے اور بے عمل خوش نما منصوبے۔
اب کوئی عمل کی بات ہو گی
اب سچی وفا ہوگی
اب انصاف ہوگا
اب ایمانداری ہو گی
میرٹ پر بات ہو گی
چھوڑ دیجیئے سنگ مرمر سے پیار کرنا
کبھی اپنے وطن کی کچی مٹی کی سوندھی خوشبو کو محسوس کر کے دیکھو
یہ تم سے وفا کا تقاضا کرتی ہے
یہ تمیں شہیدوں کے اس لہو کا واسطہ دیتی ہے جو اسکی رگوں میں زنگی بن کے دوڑ رہا ہے
اپنی مٹی پہ چلنے کا سلیقہ سیکھو
سنگ مرمر پہ چلو گے تو پھسل جاؤ گے
قائد نے تو فرمایا تھا کہ
اس چار دیواری کو ہم اسلام کی تجربہ گاہ بنائیں گے۔ الگ اسلامی ریاست میں امن سکون، اخوت محبت اور بھائی چارے سے رہیں گے۔
مگر یہاں تو بھائی اپنے ہی بھائی کا گلا محض ایک گز زمین کے لیے کاٹ دیتا ہے۔
یہاں سڑکیں، اچھی تنخواہیں اور سستی بجلی ہے نہ نام پر حکمران منتخب کیے جاتے ہیں۔
یہاں ایک پلیٹ بریانی کے نام پر ووٹ جیسی امانت فروخت کر دی جاتی ہے،
یہاں فنڈنگ، منی لانڈرنگ، اور آف شور کمپنیوں جیسی سیاست کے زریعے پیسے کمانے، کھانے منگوانے اور بھیجنے کا رواج ہے۔
اقبال نے سچ ہی کہا تھا
مسجد تو بنا دی شب بھر میں ایماں کی حرارت والوں نے
من اپنا پرانا پاپی ہے برسوں میں نمازی بن نہ سکا
کیا خوب امیر فیصل کو سنوسی نے پیغام دیا
تو نام و نسب کا حجازی ہے پر دل کا حجازی بن نہ سکا
اقبال بڑا اپدیشک ہے من باتوں میں موہ لیتا ہے
گفتار کا یہ غازی تو بنا کردار کا غازی بن نہ سکا
آج ہم ڈائمنڈ جوبلی منا رہے ہیں تو آئیں مل کر وعدہ کریں کہ اس مادر وطن کی حفاظت کے لیے اپنا تن من دھن قربان کر دیں گے
جب اس وطن کو ضرورت پڑی اپنی محفل کے شمس و قمر دیں گے
چاند تاروں کی اس انجمن کے لیے اپنا خون پسینہ ایک کریں گے۔
یہیں پڑھیں گے اپنے وطن کیلئے کام کریں گے
یہیں ڈاکٹر بنیں گے اپنے مریضوں کا علاج کریں گے
یہیں سائنس دان بنیں گے اپنی لیبارٹریز میں کام کریں گے۔ ڈاکٹر عبالقدیر کی طرح اپنے وطن کے لیے دفاعی ہتھیار بنائیں گے
یہیں بیمار ہونگے یہیں علاج کروائیں گے
آئیے وعدہ کریں یہیں جیئیں گے یہیں مریں گے
خدا کرے میری ارض پاک پہ اترے
وہ فصل گل جسے اندیشہ زوال نہ ہو
یہاں جو سبزہ اُگے وہ ہمیشہ سبز رہے
اور ایسا سبز کہ جس کی کوئی مثال نہ ہو
خدا کرے کہ وقار اس کا غیر فانی ہو
اور اس کے حسن کو تشویش ماہ و سال نہ ہو