چینی صدر شی جن پھنگ ایک ویژنری شخصیت کے مالک ہیں اور مختلف مواقع پر ان کے خطابات سن کر بہت کچھ سیکھنے اور سمجھنے کا موقع ملتا ہے۔ایک تقریب میں انہوں نے چینی عوام سے مخاطب ہو کر کہا کہ ”چاول کا پیالہ خود اپنے ہاتھوں میں مضبوطی سے تھام کر رکھیں’۔ پہلے تو اس بات کی گہرائی سے سمجھ نہیں آئی کہ چینی صدر نے ایسا کیوں کہا ہے مگر جوں جوں مختلف عالمی بحرانوں نے سر اٹھانا شروع کیے اور دنیا کو تحفظ خوراک یا فوڈ سیکیورٹی کے خطرات نے گھیرا تو اس بات کا حقیقی مفہوم سمجھ میں آ گیا۔
چین کی یہ کوشش ہے کہ اناج میں مکمل خود کفالت کی منزل حاصل کی جائے تاکہ دنیا پر انحصار کم سے کم ہو سکے۔یہ اس باعث بھی اہم ہے کہ چین ایک ارب چالیس کروڑ سے زائد آبادی کے ساتھ دنیا کا سب سے بڑا آبادی والا ملک ہے، لہٰذا عوام کی خوراک کی ضروریات کو پورا کرنا یقیناً کسی چیلنج سے کم نہیں۔ یہی وجہ ہے ملک نے ایسے جدید زرعی تصورات اپنائے جن پر عمل پیرا ہوتے ہوئے نہ صرف اناج کی ریکارڈ پیداوار کو یقینی بنایا گیا ہے بلکہ کسانوں کی فلاح و بہبود اور بہتر طرز زندگی کی ضمانت دی گئی ہے۔بلاشبہ اسے چین میں زرعی ٹیکنالوجی کا کرشمہ قرار دیا جا سکتا ہے کہ ملک میں اناج کی سالانہ پیداوار گزشتہ کئی سالوں سے مسلسل 650 ارب کلو گرام سے زائد چلی آ رہی ہے اور عوام کو کبھی خوراک کی کمی کا مسئلہ درپیش نہیں رہا ہے۔
اگرچہ گزشتہ سال چین میں اوسطاً فی کس اناج کی پیداوار 483 کلوگرام تھی، جو کہ 400 کلوگرام فوڈ سیکیورٹی لائن سے زیادہ تھی لیکن یہ بھی ایک حقیقت ہے کہ ملک کو اس سال اناج کی پیداوار میں کیمیاوی کھاد کی بڑھتی ہوئی قیمتوں اور کووڈ۔19 وبائی صورتحال کے مسلسل منفی اثرات کی وجہ سے سخت چیلنجز کا سامنا بھی رہا ہے.یہی وجہ ہے کہ چین کی کوشش ہے کہ موجودہ حالات میں اپنی اناج کی پیداوار اور معیار کو بڑھانے کے لیے سائنس اور ٹیکنالوجی کے کردار کو بھرپور طریقے سے آگے بڑھایا جائے۔ یہ بات اچھی ہے کہ جدید زرعی خطوط پر استوار ہوتے ہوئے چین نے بہتر بیجوں کے فروغ، سائنسی پیمانے پر کاشت کاری اور زرعی میکانائزیشن کی بدولت فی یونٹ رقبہ اپنی پیداوار میں مسلسل اضافہ کیا ہے۔ 2003 کے مقابلے میں گزشتہ سال کھیتوں کی فی ہیکٹر اناج کی پیداوار میں 1,468 کلو گرام کا اضافہ ہوا ہے۔ ملک نے 2014 سے مکئی، سویا بین، چاول، گندم اور دیگر اقسام کی فصلوں کے بیجوں کی افزائش پر مشترکہ تحقیق کا آغاز کیا ہے، اور چاول کے بیجوں کی کئی نئی اقسام کی افزائش کی گئی ہے۔اس کے ثمرات یوں برآمد ہوئے کہ آج چین کی 95 فیصد سے زائد قابل کاشت اراضی خود ملک کے تیار کردہ بیجوں کے ساتھ بوئی جاتی ہے اور 96 فیصد سے زائد قابل کاشت اراضی پر بیجوں کی بہتر اقسام کاشت کی جاتی ہیں۔
اسی طرح چین نے زرعی مشینری کے استعمال کو فروغ دیا ہے، اور کسانوں کو کمپنیوں اور سماجی تنظیموں کے ذریعے زرعی مشینری اور خدمات تک رسائی کی پیشکش سے جدید زراعت کی راہ پر گامزن کیا ہے۔ اس وقت توجہ فصل کی کٹائی، نقل و حمل اور ذخیرہ کرنے میں اناج کے نقصان کو کم کرنے اور زرعی میکانائزیشن کی پیداوار کی کارکردگی کو مزید بہتر بنانے پر مرکوز کی جا رہی ہے۔چین کی کوشش ہے کہ زرعی مشینری کو زرعی انواع کے مطابق بہتر طریقے سے ڈھالا جائے، اور زرعی مشینری کے اطلاق کے پیمانے کو وسعت دی جائے۔ یہ بات قابل زکر ہے کہ 2021 میں اہم فصلوں مثلاً گندم، مکئی اور چاول کی کاشت، بوائی اور کٹائی میں قومی اوسط جامع میکانائزیشن کی شرح بالترتیب 97 فیصد، 90 فیصد اور 85 فیصد سے تجاوز کر چکی ہے۔ساتھ ساتھ زرعی مشینری کی تحقیق، مینوفیکچرنگ اور استعمال پر سبسڈی جاری رکھی جائے اور زرعی مشینری اور آلات کو بھرپور طریقے سے مقبول بنایا جائے، جس سے زرعی پیداوار کی کارکردگی میں نمایاں اضافہ ہو سکتا ہے اور زرعی اخراجات کی لاگت کم ہو سکتی ہے۔
زراعت کے حوالے سے اس اہم پہلو پر بھی توجہ دی جا رہی ہے کہ فصلوں کو آفات سے بچاؤ اور تخفیف کے لیے اپنی صلاحیتوں کو مزید مضبوط کیا جائے۔اس ضمن میں قدرتی آفات کی پیش گوئی اور قبل از وقت وارننگ کو مؤثر طریقے سے بہتر بنانے کے لیے اعلیٰ درستگی کی حامل نگران ٹیکنالوجی اور آلات کو مقبول بنایا جا رہا ہے۔یوں چینی عوام کو اس بات کی ضمانت دینے کی کوشش جاری ہے کہ چاہے علاقائی و عالمی سطح پر جو بھی تبدیلیاں رونما ہوں انہیں کبھی تحفظ خوراک یا غذائی قلت کا اندیشہ نہ ہو اور چاول کا پیالہ ہمیشہ خود اُن کے ہاتھ میں رہے۔